میاں بیوی کے درمیان لڑائی اکثر ہو جاتی ہے کبھی کسی چھوٹی بات پر تو کبھی بڑی باتوں پر مگر آپس میں ایک دوسرے کے لئے اتنا تلخ ہونا اچھی بات نہیں کہ صبر اور برداشت کا اختتام مار پیٹ پر ہو، تھپڑ ہو اور عموماً ہمارے ہاں مرد اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانے میں دیر نہیں لگاتے ہیں اور وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ کب کہاں کیسے اور کس حال میں ہیں وہ جو ان پر ہاتھ اٹھا رہے ہیں۔
ہم ٹی وی سے آنے والا ڈرامہ لاپتہ کا ایک سین سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے جس میں شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے اور شوہر پلٹ کر کہتا ہے کہ قیامت تو اب آئے گی اور زوردار تھپڑ بیوی کے منہ پر مار دیتا ہے جس کے بعد بیوی بھی پلٹ کر اتنا زور دار تھپڑ رسید کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ہمت نہ کرنا آگے بڑھنے کی میں تمہارے ہاتھ توڑ دوں گی۔
یہ سین ڈرامہ لاپتہ کی بارہویں قسط میں ہے جو پچھلے ہفتے دکھائی گئی جس پر خود مرزا گوہر رشید (ڈرامے میں شوہر یعنی دانیال کا کردار نبھانے والے) نے اتوار کے روز انسٹاگرام پر ایک پوسٹ کرتے ہوئے اپنے مؤقف سے آگاہ کیا کہ:
''
مجھے ٹی وی پر تشدد دیکھنا پسند نہیں، اس لیے میں کم از کم اپنے کرداروں میں اس طرح نظر نہیں آتا یہ ہماری بدقسمتی ہے لیکن ٹی وی پر تشدد دکھانا معاشرے کا حصہ بن چکا ہے، عورت سے نفرت کرنا بد تمیزی کرنا ٹھیک سمجھا جاتا ہے، عورت کو تھپڑ مارنا کوئی بری بات نہیں، میں نے یہ ڈرامہ صرف اس سین کی وجہ سے کرنے کی حامی بھری کیونکہ ہم نے اب تک بیوی کو تھپڑ کھاتے ہوئے دیکھا ہے شوہر کو تھپڑ مارنے کا یہ پہلا واقعہ جو ایک ڈرامے کی صورت میں ہے یہ ایک نئی سوچ سامنے لا رہا ہے کہ صرف مرد ہی نہیں، ایک عورت بھی برابر کا حق رکھتی ہے ظلم کے خلاف آواز اٹھانے میں۔

جس پر اب پی پی پی کی رکن قومی اسمبلی شرمیلا فاروقی کہتی ہیں کہ:
''
ظلم برداشت کرنا مرضی نہیں مجبوری ہے، ہزاروں عورتیں روزانہ ظلم کا شکار ہوتی ہیں کیونکہ وہ جوابی طور پر اپنے شوہر کو نہ تو مار سکتی ہیں اور نہ ہی چھوڑ نہیں سکتیں ہیں۔
ازدواجی ریپ، گھریلو تشدد ، تیزاب گردی کا شکار اور بچپن میں کی جانے والی شادیاں ہمارے معاشرے کی وہ برائیاں ہیں جو پھیلی ہوئی ہیں۔ متاثرہ خواتین جسمانی اور مالی طور پر بے بس ہوتی ہیں، وہ خاموشی سے سب برداشت کرتی ہیں اور جو ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں ان کو یا تو خاموش کرادیا جاتا ہے یا پھر مار دیا جاتا ہے،۔
''