افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد ملک کے نظام میں نمایاں تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں اور تاحال ہر آئے روز ہو رہی ہیں۔
افغانستان میں طالبان اپنے طور طریقے اور اسلامی قانون رائج کرنے کے خواہ ہیں جس کی دیگر اسلامی ممالک میں پذیرائی کی جا رہی ہے۔
لیکن طالبان کی حکومت آنے کے بعد افغانستان میں پہل سےچلنے والے ادارے بالخصوص طبی مراکز میں مثبت تبدیلیاں دیکھنے میں نہیں آئیں۔
خاص طور پر حاملہ خواتین کو اسپتالوں میں کئی مشکلات اور مسائل کا سامنا کرنا پڑن رہا ہے۔
مشرقی افغانستان کے صوبے ننگرہار کے ایک چھوٹے سے اسپتال میں چند روز قبل ہی بچے کو جنم دینے والی رابعہ اپنی گود میں لیے اپنی پریشان کن صورتحال سے آگاہ کرتی ہیں۔ رابعہ نے کا کہ یہ میرا تیسرا بچہ ہے لیکن اس بار کا تجربہ بہت خوفناک اور مختلف تھا۔
جس زچہ و بچہ سینٹر میں رابعہ کے بچے کی پیدائش ہوئی وہ چند ہی ہفتوں میں بنیادی طبی سہولیات سے محروم ہو گیا تھا۔ انھیں نہ کوئی درد سے نجات کی دوا ملی نہ دوائی اور نہ ہی خوراک مل سکی۔
ہسپتال میں درجہ حرارت 43 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچا تھا۔ بجلی سے بھی محروم ہوچکے تھے اور جنریٹر چلانے کے لیے ایندھن موجود نہیں تھا۔ رابعہ کی دائی عابدہ جنہوں نے موبائل فون کی روشنی میں رابعہ کا بچہ ڈیلیور کروانے میں مدد کی تھی،وہ بتاتی ہیں کہ ہمیں اتنا پسینہ آرہا تھا جیسے نہا رہے ہوں۔
یہ میری ملازمت کا اب تک کا بدترین تجربہ تھا۔ یہ بہت تکلیف دہ تھا۔ مگر یہ طالبان کے قبضے کے بعد سے ہر دن اور ہر رات کی کہانی ہے۔