“پہلے امریکہ نے ہماری زمین پر قبضہ کیا ہوا تھا اس لئے وہ ہمارا دشمن تھا لیکن اب وہ باب ختم ہوچکا ہے۔ ہم مستقبل کا سوچ رہے ہیں اور اگر امریکہ، افغانستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے تو ہم اسے خوش آمدید کہیں گے“
طالبان ترجمان سہیل شاہین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے افغانستان کی نئی پالیسیوں پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ اب طالبان پچھلی باتوں کو بھول کر آگے کا سوچ رہے ہیں اور کسی سے بھی بدلہ لینے کی نہیں سوچ رہے۔
کیا طالبان داعش کے خلاف امریکہ کے ساتھ اتحاد کریں گے؟
اس سوال کے جواب میں سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ طالبان کا وعدہ ہے کہ وہ کسی بھی گروہ کو دوسرے ملک میں کارروائی کرنے کے لئے افغانستان کی زمین ہر گز فراہم نہیں کریں گے۔ اور اس کے لئے طالبان کو کسی سے اتحاد کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ تو ہماری اپنی ذمہ داری ہے جو ہم پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
چین سے تعلقات
چین سے دوستانہ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے طالبان ترجمان نے بتایا کہ “ہم اس مشکل وقت میں چین کی افغانستان کی تعمیر و ترقی کے سلسلے میں مدد کرنے کے جذبے کی عزت کرتے ہیں۔ ہمارے چین کے ساتھ کئی سالوں سے تعلقات ہیں اور وہ انسانی ہمدردی کے تحت ہمای مدد کررہے ہیں“
عمران خان کی کوششوں کو سراہتے ہیں
جبکہ طالبان کے ایک اور ترجمان اور وزیرِ اطلاعات و نشریات ذبیح اللہ مجاہد نے کابل میں افغان میڈیا سے گفتگو کے دوران عمران خان اور پاکستان کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ کچھ ممالک افغانستان اور ہماری مشکلات سمجھے بغیر تنقید کررہے تھے جبکہ پاکستانی وزیرِ اعظم نے افغانستان میں امن قائم رکھنے کی کافی کوششیں کیں۔
روس کو طالبان کے ساتھ چلنا ہے
حیرت انگیز طور پر روسی صدر ولادیمیر پوتن کا شمار بھی ان سربراہان میں ہوتا ہے جو طالبان حکومت پر مکمل بھروسہ کرتے ہیں۔ افغانستان پر طالبان کی فتح کے بعد روسی صدر نے کہا کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت ایک حقیقت ہے اور رعس کع اس کے ساتھ ہی چلنا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں روس کے نمائندے واسیلی نیبنزیا کا کہنا ہے کہ وہ افغانستان میں مفاہمت کی ’نئی امید‘ دیکھ رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ قانون کی حکمرانی واپس آ رہی ہے اور یہ کہ ’برسوں کی خونریزی کا خاتمہ‘ ہو گیا ہے۔
ہم اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے
البتہ اسرائیل کے بارے میں طالبان کا موقف ہے کہ وہ ان سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے۔ ایم انٹرویو کے دوران طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ ہم ہر ملک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں لیکن اسرائیل ان ممالک کی فہرست میں شامل نہیں۔