سوشل میڈیا پر آئے روز لوگوں کی تصاویر اور کہانیاں وائرل ہوتی ہیں۔ جیسے اس بچے کی یہ ماسک بیچتی ہوئی تصویر بھی 2 ہفتے سے خوب وائرل ہوئی۔ دراصل یہ بچہ پشاور کے بی آرٹی بس سٹینڈ پر ماسک بیچتا ہے۔ کسی نے سوشل میڈیا پر یہ تصویر لگا کر لکھا کہ یہ بچہ ماسک بیچتا ہے، اتنی ٹھنڈ ہے کوئی ہے جو اس کی مدد کرے۔ سوشل میڈیا پر ہی کسی نے بتایا کہ بچہ یتیم ہے وہ اپنا گزارہ کرنے کی خاطر یہ ماسک بیچتا ہے۔
صوبائی حکومت کا نوٹس
تصویر وائرل ہونے کے بعد صوبائی حکومت نے اس کا نوٹس لیا اور ضلعی انتظامیہ نے بچے کو ’ زمونگ کور‘ سرکاری یتیم خانے متنقل کردیا تھا۔ مگر حقیقت میں یہ بچہ یتیم نہیں ہے اس کے والدین بھی ہیں، چاچا بھی ہیں، بھائی بہن بھی ہیں۔ جب بچے کی تصاویر اور زمونگ کور جانے کا والدین کو پتہ چلا تو انہوں نے وہاں رابطہ کیا اور بتایا کہ یہ بچہ یتیم نہیں ہیں، میں باپ ہوں اس کا، یہ ماسک اپنی مرضی سے بیچتا ہے، ہم نے اس کو گھر سے نہیں نکالا۔
لیکن زمونگ کور کی پالیسی کے مطابق انہوں نے والدین کو بچہ دینے سے انکار کیا، جس پر شہر کے اسسٹنٹ کمشنر احتشام الحق نے ان کی بہت مدد کی۔
والد نے یہ بھی بتایا کہ:
''
بچہ نہ یتیم ہے اور نہ بے گھر، ہم پشاور کے علاقے تہکال میں مسلم لیگ ن کے مقامی رہنما کے کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ بچے کے حوالے سے
مسلم لیگ ن کے رہنما ارباب خضر حیات نے زمونگ کور کو خط بھی بھیجا اور بچہ واپس کرنے کا بھی کہا تھا۔
''
نجی ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے لیگی رہنما نے بتایا کہ:
''
صوبائی حکومت نے بغیر کسی وجہ کے اس بچے کو زمونگ کور بھیج دیا ہے جبکہ یہ بچہ اپنی مرضی سے بس سٹیشن پر ماسک بیچتا تھا ۔ بچے کے والد نے مجھ سے مدد کی اپیل کی کہ حکومت سے میرے بچے کو واپس لایا جائے۔ لیکن حکومت بچے کو واپس اس کے والد کے حوالے نہیں کرنا چاہتی، جب کہ ان کے والد اپنے بچے کے لیے پریشان ہیں۔
''
چچا صداقت
اس معاملے پر بچے کے چچا صداقت کا کہنا تھا کہ:
''
ہماری اجازت کے بغیر، ہمیں آگاہ کئے بغیر بچے کو یوں یتیم خانے میں ڈال دیا گیا، اگر آپ ہمیں تنبیہ کرتے کہ اب بچے کو ماسک بیچنے کے لئے نہ بھیجیں تو ہم ہر گز یہ نہیں کرتے، ایسے بچے کو یوں والدین سے دور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
''
بچہ ماسک کیوں بیچتا تھا؟
بچے نے خود اسسٹنٹ کمشنر احتشام الحق کو بتایا کہ اس کے والدینزبردستی اس کو ماسک بیچنے پر مجبور کرتے تھے اس لئے وہ جاتا تھا، جبکہ والدین نے اس بات کا نفی میں جواب دیا کہ ہم اس کو نہیں بھیجتے، یہ خود ہی چلا جاتا ہے۔
جھوٹ کیسے پکڑا گیا؟
اب چونکہ اسسٹنٹ کمشنر احتشام الحق بھی اس میں شامل ہوگئے، انہوں نے عدالت میں بچے کو پیش کیا اور والدین بھی تھے، جہاں عدالت کے سامنے والدین نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ہم نے بچے کو ماسک بیچنے کے لئے کہا تھا۔
اب بچہ کہاں ہے؟
خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن کمیشن کے سربراہ اعجاز خان کے مطابق:
''
بچے کے والدین اس کو یتیم خانے سے لے جا سکتے ہیں، لیکن ان کو شورٹی بانڈز جمع کروانے ہوں گے کہ ائندہ وہ بچے کو یوں کام پر نہ بھیجیں۔
''