ہر کسی انسان کو کھانے میں میٹھا یا نمکین پسند ہوتا ہے لیکن آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیا ایک ایسا پاکستانی بھی موجود ہے جو درختوں کے پتے بہت شوق سے کھاتا ہے، تو آئیے آپکو اس کے بارے میں دلچسپ اور حیران کردینے والی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
اس شخص کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے ہےجس کا نام محمود بٹ ہے، اب اس شخص کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے وہ پچھلے 25 سال سے درختوں کے پتے اور ٹہنیاں کھا کر ہی گزارا کر رہا ہے۔
ملک عظیم میں مہنگائی کے جن کی وجہ سے اس شخص کا کہنا ہے کہ روزگار تو ہے
نہیں جس دن دیہاڑی لگ جاتی ہے اس دن اچھا کھانا یا پھر یوں کہہ لیں کہ انسانوں والا کھانا کھا لیتا ہوں۔
مگر انکا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں اب تو پتے بہت اچھے لگتے ہیں اور یہی ان کی صحت کا بھی راز ہے۔
یوں پتے کھانا بھی ایک اللہ پاک کا کرشمہ ہی ہے کیونکہ اب ان کی عمر 50 سال سے زائد ہو چکی ہے اور ایک طرف تو یہ پتے کھا کھا کر گزارا کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہ اس بڑھاپے میں بھی گدھا گاڑی چلا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس عمر میں گدھا گاڑی کیوں چلاتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی مہنگائی نے مار دیا ہے تو اب گدھا گاڑی نہ چلاؤں تو گھر کا خرچ کیسے پورا کروں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ خود ہی بتا ڈالا کہ وہ اس گدھا گاڑی پر مال برداری کا کام کرتے ہیں یعنی کہ دوکانوں والوں کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔
بٹ صاحب اپنے محلے اور پورے شہر میں بہت مشہور ہیں کہ کس طرح یہ شخص پتے کھاکر زندہ کیسے ہے اور تو اور اب تو ڈاکٹرز کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ ناممکن سی بات ہے کہ یہ شخص زندہ کیسے ہے آخر۔
اپنی اس حالت پر انکا کہنا ہے کہ سڑکوں پر بھیک مانگنا مجھے اچھا نہیں لگتا یہی وجہ ہے کہ میں اپنے کھانے کیلئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور پتے کھا لیتا ہوں۔
واضح رہے کہ اب تک پوری تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ پنجاب میں کس شہر کا رہائشی ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ 50 سالہ بابا جی راستے میں کہیں بھی درختوں پر ہرے بھرے پتے دیکھتے ہیں تو رک جاتے ہیں، وہیں کھانا شروع کر دیتے ہیں اور باقی دن کیلئے بھی پتے درختوں سے توڑ لیتے ہیں۔
ہر کسی انسان کو کھانے میں میٹھا یا نمکین پسند ہوتا ہے لیکن آپ سوچ سکتے ہیں کہ کیا ایک ایسا پاکستانی بھی موجود ہے جو درختوں کے پتے بہت شوق سے کھاتا ہے، تو آئیے آپکو اس کے بارے میں دلچسپ اور حیران کردینے والی معلومات فراہم کرتے ہیں۔
اس شخص کا تعلق پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب سے ہےجس کا نام محمود بٹ ہے، اب اس شخص کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے وہ پچھلے 25 سال سے درختوں کے پتے اور ٹہنیاں کھا کر ہی گزارا کر رہا ہے۔
ملک عظیم میں مہنگائی کے جن کی وجہ سے اس شخص کا کہنا ہے کہ روزگار تو ہے
نہیں جس دن دیہاڑی لگ جاتی ہے اس دن اچھا کھانا یا پھر یوں کہہ لیں کہ انسانوں والا کھانا کھا لیتا ہوں۔
مگر انکا یہ بھی کہنا ہے کہ انہیں اب تو پتے بہت اچھے لگتے ہیں اور یہی ان کی صحت کا بھی راز ہے۔
یوں پتے کھانا بھی ایک اللہ پاک کا کرشمہ ہی ہے کیونکہ اب ان کی عمر 50 سال سے زائد ہو چکی ہے اور ایک طرف تو یہ پتے کھا کھا کر گزارا کر رہے ہیں تو دوسری طرف یہ اس بڑھاپے میں بھی گدھا گاڑی چلا رہے ہیں۔
اس کے علاوہ جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ اس عمر میں گدھا گاڑی کیوں چلاتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ پہلے ہی مہنگائی نے مار دیا ہے تو اب گدھا گاڑی نہ چلاؤں تو گھر کا خرچ کیسے پورا کروں۔
ساتھ ہی ساتھ یہ خود ہی بتا ڈالا کہ وہ اس گدھا گاڑی پر مال برداری کا کام کرتے ہیں یعنی کہ دوکانوں والوں کا سامان ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاتے ہیں۔
بٹ صاحب اپنے محلے اور پورے شہر میں بہت مشہور ہیں کہ کس طرح یہ شخص پتے کھاکر زندہ کیسے ہے اور تو اور اب تو ڈاکٹرز کا بھی یہی کہنا ہے کہ یہ ناممکن سی بات ہے کہ یہ شخص زندہ کیسے ہے آخر۔
اپنی اس حالت پر انکا کہنا ہے کہ سڑکوں پر بھیک مانگنا مجھے اچھا نہیں لگتا یہی وجہ ہے کہ میں اپنے کھانے کیلئے کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتا اور پتے کھا لیتا ہوں۔
واضح رہے کہ اب تک پوری تصدیق نہیں ہو سکی کہ یہ پنجاب میں کس شہر کا رہائشی ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ 50 سالہ بابا جی راستے میں کہیں بھی درختوں پر ہرے بھرے پتے دیکھتے ہیں تو رک جاتے ہیں، وہیں کھانا شروع کر دیتے ہیں اور باقی دن کیلئے بھی پتے درختوں سے توڑ لیتے ہیں۔