مہنگائی نے پاکستانیوں کو مار دیا ہے گھریلو سامان ہو یا پھر سفر کیلئے کا ر، موٹر سائیکل ہو سب ہی کا سامان 10، 50 اور 300 روپے میں مل رہا ہے، کیا یہ حقیقت ہے تو جی ہاں یہ بلکل حقیقت ہے، آئیے جناتے ہیں۔
کراچی کے علاقے یوپی موڑ سیکٹر ڈی 11 میں یہ بازار لگایا جاتا ہے جہاں نئی اور پرانی چیزیں دونوں ہی ستے داموں میں میسر ہوتی ہیں اور پورے کراچی سے لوگ یہاں خریداری کرنے آتے ہیں۔
اگر ہم یہاں بات کریں کہ سفر کیلئے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی گاڑی کون سی ہے تو وہ ہے موٹر سائیکل۔ اب اس بازار میں موٹر سائیکل کی بیک لائٹ 100 سے 200 روپے میں، موٹر سائیکل کے ٹائر کے رم 2600 میں دونوں وہ بھی نئے،بلکل چمکتے ہوئے۔
موٹر سائیکل کے میگنٹ کور 300 روپے میں، پاؤں رکھنے والے پائےدان کی ایک جوڑی 50 روپے میں، بڑی فینسی لائٹ 300 روپے میں جبکہ موٹر سائیکل کے ماڈی گارڈ پر لگنے والی دم جو آپکو سڑک پر پڑے ہوئے کچرے اور گندے پانی سے بچاتی ہے یہ صرف 70 روپے میں مل جاتی ہے۔
یہی نہیں یہاں مہنگے سے مہنگا لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹ صرف 3 سے 4 ہزار روپے کا باآسانی مل جاتا ہے، یہاں فروخت ہونے والے ٹیبلٹ میں 1 جی بی ریم،8 جی بی میموری ہے جبکہ 64 جی بی میمیوری کارڈ الگ سے بھی اس میں لگ سکتا ہے۔ یہ بہترین لیپ ٹاپ صرف یہاں ہی مل سکتا ہے۔
اب بات کرتے ہیں گھروں میں استعمال ہونے والے ڈائنگ ٹیبل کی تو یہاں 4 افراد کے بیٹھنے والا ڈائننگ ٹیبل 8 ہزار روپے میں، 6 افراد والا ڈائننگ ٹیبل 13 ہزار روپے اور 8 افراد کے بیٹھنے والا ڈائننگ ٹیبل تقریباََ 18 ہزارو روپے کا با آسانی مل رہا ہے، مگر یاد رہے کہ یہ تینوں استعمال شدہ ہیں نئے نہیں۔
مزیدیہ کہ اس سستے بازار میں ہر ماڈل کے موبائل فون کا کور 10 روپے، چارجر، ڈیٹا کیبل 100 سے 200 روپے میں اس کے علاوہ بلیو ٹوتھ والے ہینڈ فری، اسپیکرز اور بہت کچھ یہاں با آسانی مل جاتے ہیں۔
ان سب باتوں کے بعد آپکو ایک بات اس بازار میں جاتے وقت یاد رکھنی چاہیے کہ یہ جسے ہم سستا بازار کہہ رہے ہیں یہاں تمام نئی چیزیں کسٹم اور نان کسٹم موجود ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ روزمرہ کے استعمال ہونے والی تمام ہی اشیاء ہمیں یہاں با آسانی مل سکتی ہیں۔
کسٹم اور نان کسٹم سے مراد یہ کیا ہے تو ان چیزوں کو ہم نان کسٹم کہتے ہیں جو دوسرے ممالک سے آئی ہوں اور اس کا پاکستانی حکومت کو ٹیکس نہیں دیا گیا ہو جبکہ کسٹم سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا ٹیکس پہلے ہی حکومت کو ادا کر دیا گیا ہو۔
البتہ اگر آپ کوئی پرانی چیز خرید رہے ہیں تو پھر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
واضح رہے کہ نان کسٹم اشیاء چاہے جتنی بھی اچھی کیوں نہ ہوں نہ لی جائے کیونکہ ایک اچھے شہر کی طرح ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم لوگ اس چیز کو پہلی ترجیح دیں جس کا ٹیکس حکومت کو ادا کر چکے ہوں۔
یہ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ٹیکس نہ دینا چور بازاری ہے اور ہر صاحب فہم انسان یہ بات سمجھتا ہے کہ اپنے ہی ملک کے ساتھ یوں کرنا کوئی اچھی بات نہیں۔