ہر مذہب صفائی کا درس دیتا ہے۔ اسلام میں صفائی کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ لیکن ملک پاکستان میں صفائی پسند کرنے والے کچھ ہی لوگ ہیں۔ زیادہ تر تو سڑکوں پر کچرا پھینکنا پسند کرتے ہیں۔ پھر شکوہ کرتے ہیں کہ ملک میں گندگی بہت ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ جب کوئی صاف صفائی کرنے والا سینیٹری ورکر ہمارے کیے گئے کچرے کو صاف کرتا ہے تو اس کو ہم نا زیباں الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ان خاکروبوں اور صفائی کرنے والے سینیٹری ملازمین کے حق میں نعرے بلند کیے جا رہے ہیں۔ یہ بیچارے خود اپنی عزت کی خاطر احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔ کچھ دن قبل ایک تصویر وائرل ہوئی تھی جس میں ایک ملازم نے پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا کہ میں صفائی والا ہوں، چوہڑا نہیں۔ محنت سے کمائی کرنے والوں کو اگر یوں برے القابات سے نوازا جائے گا تو کیا ان کو برا نہیں لگے گا؟ کیا ہماری قوم اس قدر بے حس ہوگئی ہے کہ اب محنت سے کام کرنے والے طبقے کو بھی برا بھلا کہیں گے؟ اور وہ بھی ایسا طبقہ جو ہماری ہی کی گئی گندگیوں کو صاف کرتا ہے، کچرا اٹھاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر مختلف تنظیمیں اور صارفین مل کر ان لوگوں کے حق میں ان کے ساتھ ہم آواز ہیں۔ اس بات میں کتنی صداقت اور دم ہے کہ میں صفائی کرنے والا ہوں، صفائی نصف ایمان ہے تو میں صفائی کرنے والا گندہ کیسے ہوا؟ واقعی ایک لمحے کے لئے اگر سوچیں تو ہم گندگی کرنے والوں سے زیادہ معتبر تو یہ لوگ ہیں جو ماحول کو صاف کر رہے ہیں، خود گندگی سے بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں لیکن ہمیں بیماریوں سے بچا رہے ہیں۔
پاکستان میں یہ پہلی ایڈووکیسی مہم ہے جوصفائی سے وابستہ افراد کی حفاظت ان کے وقار اور سماجی تحفظ سے متعلق آگاہی پیدا کر رہی ہے اور معاشرے میں ان کی عزت کو اجاگر کرنے کے لئے کام کر رہی ہے۔
یہ مہم کب شروع ہوئی؟
ویسے تو اس مہم کا آغآز 2013 سے 2018 تک میری جیمس گل جوکہ قانون دان اور مقامی بارایسوسی ایشنز سے منسلک رہی ہیں ان کی سرپرستی میں ہوئی، لیکن وقت کے ساتھ لوگوں نے اپنی روش نہ بدلی اور ان لوگوں کو اب بھی چوہڑا اور گندہ کہہ کر پکارا جانے لگا۔ جس کی وجہ سے اب ٹوئٹر پر سوئپرز آر ہیروز نامی پیج بنایا گیا ہے جس کی جانب سے خاکروبوں اور سینیٹری ورکرز کے حق میں آواز بلند کی جا رہی ہے۔ کروڑوں کی تعداد میں صارف اس اقدام کو پسند کر رہے ہیں۔