آج کے ہم انسانوں کو ایک چھوٹی سی چوٹ لگ جائے تو ہم سے برداشت نہیں ہو پاتی مگر ایک ایسا بھی پاکستانی شخص ہے جسے 11 ہزار واٹ کی بجلی کی لائن سے خطرناک کرنٹ لگا اور دونوں بازو کٹ گئے۔
اس شخص کا نام بی۔ اے شاکر ہے اور یہ لاہور کے رہنے والے ہیں بقول انکے کہ انہیں 3 دسمبر 2002 کو بجلی کا خطرناک جھٹکا لگا۔
جس سے میری حالت بہت خراب ہو گئی اور جب اسپتال لے گئے تو میرا دل گردہ باہر پڑا ہوا تھا یہی نہیں اس خوفناک حادثے میں جسم سے خون بھی بہت ضائع ہوا اور دوبارہ صحت یاب ہونے کیلئے 72 بوتلیں خون کی درکار تھیں۔
جو دوست احباب اور اسپتال والوں نے میری زندگی بچانے کیلئے دیا۔ یہ باہمت انسان پھر بھی ہمت نہ ہارا۔
اور اللہ پاک سے اسپتال میں ہی دل ہی دل میں یہ وعدہ کر ڈالا کہ ایک مرتبہ بس ٹھیک کر دے تو اپنی ساری زندگی انسانیت کیلئے وقف کر دوں گا تو بلکل اب اپنے وعدے کے مطابق ایک ایمبولینس بنا رکھی ہے۔
جس میں معذور اور غریب لوگوں کو مفت ایمرجنسی کی صورتحال میں اسپتال چھوڑ کر آتا ہوں، یہاں حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دونوں ہاتھ نہ ہونے کے باوجود بھی یہ ایمبولینس خود چلاتے ہیں۔
اس کے علاوہ بی اے شاکر دونوں ہاتھ نہ ہونے کے باوجود کمپیوٹر خود چلاتے، ضروری کاغذات پر دستخط خود کرتے، اپنے بالوں میں کنگھی خود کرتے۔
ان سب کاموں سمیت اور بہت سے کاموں کیلئے انہوں نے ایک لوہے آلہ جیسا بھی بنا رکھا ہے جس میں وہ بال پن پھنسا کر کمپیوٹر چلاتے دستخط کرتے اور کنگھی اڑا کر اپنے بال بھی سنوارتے۔
یہی نہیں بلکہ انہوں نے ایک اب این ۔جی۔او بھی لاہور میں کھول رکھا ہے جو پورے پاکستان میں موجود غریب اور حقدار لوگوں کی مدد کرتے ہیں۔ اب تک انہوں نے کئی فلاحی کام کیے ہیں۔
جیسا کہ غریب لوگوں کو بجلی والی وہیل چیئر، سادی وہیل چیئر اور ٹرائی سائیکل دی ، پہننے کو کپڑے اور سردی کے موسم میں ٹھنڈ سے بچنے کیلئے گرم کپڑے بھی کئی ہزار لوگوں کو دے چکے ہیں۔
مزیہ یہ کہ آپ سوچ رہے ہوں گے ان کے دونوں ہاتھ نہیں ہیں تو یہ سب یہ کیسے کر پاتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کے دوست، رشتے دار بہت ہی ہمدرد ہیں۔
جو ان کے بازو نہ ہونے پر اب انکے بازو بن گئے ہیں اور ہمیشہ ان کا حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ بی۔ اے شاکر ایک آرمی کے جوان ہیں۔
انہوں نے 12 سال پاک آرمی میں بطور باکسر اسپورٹ میچز کھیلے جہاں اور اتنے عرسے میں انہیں کوئی ناک آؤٹ نہیں کر سکا۔ انکا علاج پورے 1 سال تک سی ۔ایم۔ ایچ لاہور میں ہوتا رہا۔
مختصراََ یہ کہ آج انکا ایک ہاتھ کندھے سے کٹا ہوا ہے اور دوسرا ہاتھ درمیان سے کٹا ہوا ہے لیکن یہ پھر بھی ہر وقت اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔