کبھی کبھار اِنسان آزمائش کی زنجیروں میں اتنا جکڑ جاتا ہے جس کے بعد وہ بے بسی کے عالم میں آکر اُمید چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن بہت سے باہمت لوگ اُنہی آزمائشوں کی زنجیروں کو توڑ کا اپنے لیے راستہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوتے اور مشکلات کو روند دیتے ہیں۔
پاکستان میں آج لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے روزی کمانا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔ اچھی تعلیم ہونے کے باوجود بھی ان کے پاس نوکری نہیں ہے تو وہ کوئی ٹھیلا لگانے پر مجبور ہیں یا فوڈ ڈیلیوری رائیڈر بن جاتے ہیں۔
آج ہم ایک ایسی ہی خاتون کے بارے میں بات کرنے جا رہے ہیں جو تعلیم یافتہ تو ہیں مگر اچھی نوکری نہیں ہے۔ حیرت انگیز طور پر مذکورہ خاتون 'کباڑ' کا کام کر رہی ہیں۔ مگر اس کباڑ کے کام میں بھی اتنی برکت ہے کہ وہ ماہانہ لاکھوں روپے کما لیتی ہیں۔
مذکورہ خاتون کا نام نیشا علی ہے جنہوں نے سید باسط کے ویب چینل کو انٹرویو دیا۔ نیشا نے کہا کہ انہوں نے لاہور کی بڑی یونیورسٹی سے تاریخ میں ڈگری حاصل کی ہے۔
نیشا نے بتایا کہ وہ 7 سال سے یہ کام کر رہی ہیں۔ اس کام کے کرنے کی وجہ یہ ہے کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا اور گھر میں کوئی بڑا بھائی کمانے والا نہیں ہے۔ اس لیے ڈگری ہولڈر ہونے کے باوجود مجھے خود اس کام کے لیے آگے آنا پڑا۔
نیشا علی نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے نوکری اس لیے نہیں کی کہ اتنی بڑی ڈگری ہونے کے بعد بھی انہیں 45 یا 50 ہزار کی نوکری ملتی۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے کاروبار کا انتخاب کیا۔ نیشا نے بتایا کہ میرے والد صاحب مرحوم بھی یہی کام کر رہے تھے مجھے یہ طریقہ اچھا لگا۔ کباڑ کا کام کرنے والی خاتون نے یہ بھی بتایا کہ الحمداللہ میں اس کام سے ماہانہ 1 سے 2 لاکھ روپے منافع کما لیتی ہوں۔
خاتون نے بتایا کہ چھوٹے اور بڑے کباڑ کا سامان میں ملوں کو فرخت کرتی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ کباڑ کا سارا کام ری سائیکل ہوتا ہے۔
نیشا نے کہا کہ لوہا ہم 100 روپے کلو خریدتے ہیں اور ہم آگے 129 روپے کلو فروخت کرتے ہیں۔اسی طرح پلاسٹک 80 روپے میں خریدتے ہیں۔