سڑک کے درمیان فُٹ پاتھ پر موجود پراسرار قبروں کی حقیقت کیا ہے؟

image

عموماً تو قبریں قبرستان میں ہی بنائی جاتی ہیں، قبرستانوں میں مُردوں کو دفنانے کا سلسلہ بہت قدیم زمانے سے ہی چلاتا آرہا ہے۔ لیکن اگر قبریں کسی ایسی جگہ پر بنائی جائیں جہاں ٹریفک کا شور شرابا گاڑیوں کا دھواں، لوگوں کا آنا جانا تو کیا کوئی اس اقدام کو درست قرار دے گا؟

لیکن لاہور کی مین شاہراہ پر ایسا دیکھا گیا جہاں 2 مصروف سڑکوں کے درمیان فٹ پاتھ پر چھوٹا سا قبرستان موجود ہے لیکن یہ کب سے قائم ہے اس کی حقیقت کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں گے۔

لاہور شہر کے علاقے چھتری چوک پر موجود مین شاہراہوں کے درمیان ایک چوڑے فٹ پاتھ پر ایک چھوٹا قبرستان جس کے بارے میں لوگوں نے ڈیجیٹل پاکستان سے گفتگو کرتے ہوئے چند باتیں کیں۔

ایک شہری کا اس چھوٹے قبرستان کے بارے میں کہنا تھا کہ آتے جاتے ان قبروں پر نظر پڑتی ہے لیکن معلوم نہیں کہ یہ کب سے یہاں موجود ہیں۔ شہری کا کہنا تھا کہ اس فٹ پاتھ پر قبرستان نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ یہاں اس کے اطراف گاڑیاں آتی جاتی ہیں، بارشوں کے وقت یہ جگہ بھری ہوتی ہے اور آپ اپنے پیارے کو یہاں دفنا رہے ہیں تو یہ ہر گز ٹھیک نہیں ہے۔

ایک اور شہری نے ویب چینل سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس قبرستان کے بارے میں میں نے یہ سنا ہے کہ پیچھے جو قبرستان موجود ہے یہ قبریں اسی کا حصہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر انتظامیہ کی پالیسی ہے کہ یہاں قبرستان بن سکتا ہے تو یہ اب ان کی مرضی ہے اس کے علاوہ وہ اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے۔

ایک ڈاکٹر نے اپنے دفتر کے سامنے فُٹ پاتھ پر موجود قبروں سے متعلق کہا کہ اس کی واضح تاریخ کا انہیں علم نہیں ہے مگر مجھے یہ معلومات ملی ہیں کہ فُٹ پاتھ بننے سے قبل یہاں قبرستان موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کا حل بھی نہیں نکالا جا سکتا۔ شہری نے بتایا کہ انہوں نے سنا ہے کہ یہاں بہت زیادہ قبریں موجود تھیں لیکن بعد میں اس جگہ کا نقشہ پاس کیا تھا جس میں کچھ قبریں مختصر کر دی تھیں یعنی پیچھے والے قبرستان میں شفٹ کردی گئی تھیں اور چند یہیں باقی رہ گئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ جن کے لواحقین کی یہاں قبریں موجود ہیں سنا یہی تھا کہ بڑی رقم دے کر مطمئن کر دیا تھا۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US