وزیراعظم سے سوال کرنے کے دوران 2 صحافیوں کی آپس میں شدید لڑائی ہو گئی اور بات ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔
ہوا کچھ یوں کہ وزیرراعظم عمران خان پارلیمنٹ کے اجلاس کے بعد واپس تشریف لا رہے تھے تو وہاں موجود صحافیوں نے خان صاحب سے درخواست کی کہ تھوڑی دیر رک جائیں، ہمیں آپ سے بات چیت کرنی ہے۔
جب عمران خان صحافیوں کے سوالوں کے جوابات دینے کیلئے رکے تو صحافی نے
پوچھا کہ میاں صاحب واپس آ رہے ہیں تو کیاں حکومت کو اس بات سے کوئی خطرہ ہے؟
تو کہا گیا کہ ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہے ہر 2 ، 3 مہینے بعد یہ بات سننے میں آتی ہے اور ایک مرتبہ پہلے جب یہ سعودی عرب گئے تھے تب بھی یہ بات سننے میں آئی مگر پھر ڈیل کے تحت یہ وہاں ہی رک گئے۔
مزید یہ کہ اس جواب کے بعد 2 صحافیوں نے ایک ساتھ ہی سوال کرنا شروع کرد یا تو سینئر صحافی غصے میں آ گئے اور انہیں سوال کرنے سے روکتے رہے جس دوران خان صاحب وہاں سے چلے گئے۔
تو پھر کیا تھا سینئر صحافی کہتے ہیں کہ آپ کو تو تمیز ہی نہیں ہے میں سوال کر رہا ہوں اور اس کے درمیان تم کیوں بو ل رہے ہو۔
اس نوجوان نے کہا کہ سوال کرنا میرا بھی حق ہے، میں نے سوال کرنا پہلے شروع کیا تھا۔ جس پر وہاں موجود تمام سینئر صحافیوں نے اس نوجوان کو دھکے دیے، گریبان پکڑ لیا اور مختلف انداز میں اسے دھمکاتے رہے۔
اب آپ یہاں یہ سوچ رہے ہوں گے کہ وہ سوال کیا تھا جس کی وجہ سے نوجوان صحافی کے ساتھ اس کے اپنوں نے ہی یہ برتاؤ کیا۔
سوال یہ تھا کہ میاں صاحب آ رہے ہیں تو آپ کیا، فریش الیکشن کروا ئیں گے، یا پھر اسمبلیاں توڑ دیں گے اور آپ کا اگلا لائحہ عمل کیا ہو گا؟دراصل یہ ایک سخت سوال تھا۔
اس ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد اب عوام میں یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ یہ تشدد کرنے والے صحافی شاید ہوں ہیں حکومتی جماعت کے حامی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے یہ سوچا کہ یہ سوال ہو ہی نہ۔