بہت سے افراد آج ایسے ہیں جن کے پاس اچھی تو ہے تعلیم ہے مگر اِس کے باوجود در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ حالات کی مجبوری کے باعث نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کم تنخواہ والی نوکری کرنے کو بھی فوری تیار ہوجاتے ہیں۔
آج ایک ایسے شخص کی کہانی کا احوال آپ کو بتانے جارہے ہیں جو ایم ایس سی کا کوالیفائیڈ طالب علم ہے لیکن معاشی حالات سے اتنے تنگ تھے کہ سوئپر کی نوکری کے لیے بھی فورا ہاں کردی۔
سوات سے تعلق رکھنے والا ایم ایس سی کے طالب علم ظفر علی نوکری کے حصول کے لیے نکلے تو کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ ظفر علی نے خیبرپختونخواہ میں ٹیچنگ اور سپریم کورٹ آف پاکستان میں نائب قاصد کے لیے درجنوں درخواستیں دیں لیکن پھر بھی بات نہ بن سکی۔
بعدازاں پڑھے لکھے نوجوان کو راولپنڈی انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی میں سوئپر کی نوکری ملی تو ہاں کہنے میں ظفر علی نے بالکل دیر نہیں لگائی۔
طالب علم نے انٹرویو میں بتایا کہ انہوں نے بی ایس سی 2 مرتبہ میتھ (Math) میں کی پھر پنجاب یونیورسٹی سے 2nd ڈویژن 'ایم ایس سی' میتھ میں کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے کئی سارے این ٹی ایس ٹیسٹ بھی دیئے ہیں۔
ظفر علی کا کہنا تھا کہ میں کئی جگہوں پر ملازمت کے لیے اپلائی کیا ہوا ہے لیکن کہیں سے جواب نہیں آرہا۔ ظفر علی نے بتایا کہ اس کے غریب والدین نے اعلیٰ تعلیم کے حصول کا خواب سچ کرنے کے لیے اپنا سب کچھ اس پر وار دیا۔ طالب علم نے بھی دن رات پڑھائی کر کے منزل حاصل کی لیکن عملی زندگی میں مشکلات کا پہاڑ آن گرا۔
ظفر علی نے بتایا کہ جس کو بھی میں اپنی تعلیم کے بارے میں بتاتا ہوں وہ مجھ سے یہی پوچھتے ہیں کہ اچھی تعلیم کے باوجود تم سوئپر کی نوکری کیوں کر رہے ہو۔