انسان کو کب اللہ کا بلاوا آ جائے اس کا کسی کو معلوم نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ انسان کو اپنی موت کیلئے ہر وقت تیار رہنا چاہیے اور آج ہم آپکو ان مشہور و معروف شخصیات کی میتوں کے بارے میں بتانے جا رہے ہیں کہ انہیں کس طریقے سے شناخت کیا گیا؟ آئیے جانتے ہیں۔
جنید جمشید:
جنید جمشید جو کہ مشہور مذہبی اسکالر اور نعت خواں ہیں۔ ان کی میت کو ڈینٹل ہسٹری یعنی کہ دانتوں کے ذریعے شناخت کیا گیا، جس کی تصدیق اس وقت کے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے کی تھی۔
ان کا انتقال تبلیغ سے واپسی پر جہاز گرنے کے باعث ہوا جس کی وجہ سے ان کی میت کو پہچان پانا مشکل تھا۔ ان کے ساتھ اس وقت ان کی اہلیہ بھی موجود تھیں اور وہ بھی خوفناک حادثے میں بچ نہیں سکیں تھی۔
یہی نہیں اس جہاز گرنے کے واقعے میں تمام افراد جو جہاز میں سوار تھے سب ہی خالق حقیقی سے جاملے تھے۔
جنرل ضیاء الحق:
پاک فوج کے سپہ سالار جنرل ضیاء الحق کا انتقال بھی ایک طیارہ حادثے میں ہوا تھا۔
بی بی سی کے مطابق جنرل اسلم بیگ نے اپنی کتاب اقتدار کی مجبوریاں میں اس افسوسناک واقعے کی تفصیل لکھتے ہیں کہ راولپنڈی پہنچ کر سب سے پہلے میں نے لیفٹیننٹ جنرل محمد شفیق کور کمانڈر بہاولپور سے رابطہ کیا۔
انھوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں کی شناخت مشکل ہے، جنرل ضیاء کی کچھ باقیات ملی ہیں جنھیں ہم جمع کر رہے ہیں تاکہ ان کی میت کو تیار کیا جائے، یہاں سی ایم ایچ کے ڈاکٹروں کی ٹیم موجود ہے جو پوسٹ مارٹم کے لیے اعضا اکٹھے کر رہی ہے۔ جنرل ضیاٰء کی میت دوسرے دن راولپنڈی پہنچی۔
دوسرے دن میں نے جنرل شفیق سے تفصیل سے بات کی، میں نے پوسٹ مارٹم رپورٹ کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ سی ایم ایچ سے رپورٹ کا انتظار ہے، چند دنوں بعد رپورٹ ملی تو اس میں کسی قسم کے کیمیکل کی نشاندہی نہیں ہوئی۔
اور چند ہفتوں بعد جب امریکہ سے رپورٹ آئی تو اس میں بھی کسی قسم کی آلائش نہیں پائی گئی، البتہ آدھے سے زیادہ جسموں کے ٹکڑے انھوں نے واپس کر دیے تھے جو امریکیوں کے نہیں تھے۔
جنرل اسلم بیگ مزید لکھتے ہیں کہ 17 اگست کو جنرل ضیاء الحق تقریباً صبح 11 بجے قافلے کے ساتھ اپنے خصوصی جہاز سی ون تھرٹی سے بہاولپور پہنچے۔
ضیاالحق کے بہاولپور پہنچنے سے پہلے اسلم بیگ اُن کے استقبال کے لیے بہاولپور پہنچ چکے تھے۔ جب ضیاالحق آئے تو اُن کے ساتھ جنرل اختر عبدالرحمان، امریکی سفیر، اُن کے ملٹری سیکریٹری اور دیگر متعلقہ افسران تھے۔