شادی کسی بھی عورت کی زندگی کو بدل کر رکھ دیتی ہے جہاں نئے رشتے جُڑتے ہیں وہیں نئی ذمہ داریاں اور جذبات جنم لیتے ہیں۔ اگر شادی کے بعد سسرال محبت کرنے والا نہ ہو تو ساری زندگی محض سمجھوتے کرنے میں گزر جاتی ہے لیکن اگر شوہر اچھا ہو تو زندگی میں کسی حد تک سکون اور اطمینان بڑھ جاتا ہے۔ لیکن اگر شوہر ہی ساتھ چھوڑ دے تو زندگی بے معنی لگتی ہے۔ ایسا ہی ساحل بینظیر کے ساتھ ہوا جنہوں نے 20 سال کی عمر میں شادی کرلی تھی۔ ان کے والدین نے اس کی پڑھائی رُکوا کر شادی کردی تھی کہ بیٹی اپنے گھر میں خوشحال رہے گی ۔۔ قسمت کا لکھا ہوا مگر کون مٹا سکتا ہے۔
ساحل اپنی کہانی بتاتے ہوئے رو پڑیں انہوں نے کہا کہ: "
شادی کے 4 دن بعد شوہر چھوڑ کر چلا گیا اور گھر واپس نہ آیا، فون پر رابطہ ہوا کرتا تھا اور وہ ہمیشہ مجھے نظر انداز کرتا تھا، یہاں تک کہ میں حاملہ ہوئی اور بیٹے کی پیدائش بھی ہوگئی لیکن وہ گھر نہ آیا۔ ایک دن میں نے فون پر اُس سے کہا کہ آپ گھر آجائیں اب تو بیٹا بھی ایک سال کا ہونے والا ہے جس پر اس نے کہا میں صرف ایک شرط پر آؤں گا میں نے کہا ٹھیک ہے، مجھے معلوم نہیں تھا کہ گھر آ کر وہ مجھے رات گئے طلاق طلاق طلاق کے الفاظ سنائے گا۔۔ اس نے مجھے ایک سال کے بیٹے کے ساتھ رات گئے گھر سے نکال دیا۔ جب میں اپنے والدین کے پاس گئی تو اپنے رشتوں نے بھی ٹھکرایا اور ساحل کو طلاق یافتہ ہونے کا احساس دلوایا تو انہوں نے خود کو بدلنے کے لیے اپنی پڑھائی شروع کردی، خود بھی پڑھا اور بیٹے کو بھی پڑھایا اب ایک اسکول میں ٹیچر کے فرائض انجام دے رہی ہیں اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی بناتی ہیں۔
ساحل کہتی ہیں مجھے با اختیار دیکھ کر میرے شوہر نے مجھ سے دوبارہ رابطہ کیا اور دوبارہ شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر اب میں اپنی زندگی میں اپنے بیٹے کے ساتھ بہت آگے نکل چکی ہوں اور اب میں کسی سے بھی شادی کرنے کو ترجیح نہیں دیتی۔ میرا سابقہ شوہر اپنی غلطی پر شرمندہ ہوا مجھے اس بات پر خوشی محسوس ہوئی کہ میں نے خود کی محنت اور ثابت قدمی سے یہ بات واضح کردی کہ عورت کبھی بھی مرد سے کم تر نہیں رہی، بس اپنی عزت اور محبت مرد کے لیے اس درجے کی رکھتی ہے کہ اس کے سامنے کچھ نہیں بولتی۔ جب شوہر نے ساتھ چھوڑا تو احساس ہوا کہ کامیابی اپنی ذات میں چھپی ہوئی تھی بس خُدا نے ذریعے بُرے شوہر کی صورت میں بنایا۔ میں اپنے شوہر سے اب نہ ناراض ہوں اور نہ مجھے اس کے کیے ہوئے سلوک پر افسوس، بلکہ اب میں خود پر اور اپنے بیٹے پر پہلے سے زیادہ فخر کرتی ہوں۔