آج کے جدید دور میں جہاں ایک منٹ بھی ٹیکنالوجی اور دیگر سہولیات کے بغیررہنا کچھ لوگوں کیلئے مشکل ہوتا ہے وہیں ایک ایسے خاندان کے بارے میں پتا چلا ہے جو دوسری جنگ عظیم کے بعد تقریباً 40 سال دنیا سے دور جنگلوں میں زندگی گزار رہا ہے۔
انٹرنیشنل میڈیا رپورٹس کے مطابق 1978 میں روسی ماہرین ارضیات کی ایک ٹیم معدنیات کی تلاش میں سائبیریا کے تائیگا جنگل میں پہنچی تو ان کو انسانی زندگی کے آثار نظر آئے۔
ماہرین نے دریا کے قریب ایک ایسی انسانی بستی دیکھی جس کا کوئی نام نہیں تھا اور اس جنگل میں ایک ایسی صاف ستھری جگہ تھی جہاں مختلف فصلیں لگائی گئی تھیں۔
سائبیریا کا تائیگا جنگل کرہ ارض کے بڑے سبزہ زاروں میں سے ایک ہے، ہزاروں میل پر محیط گھنا یہ جنگل پہاڑوں میں گھرا ہوا ہے، جہاں ستمبر سے مئی تک موسم سرما کی برفباری جاری رہتی ہے، ان جنگلوں میں عام طور پر خوخوار ریچھ اور بھیڑیے ہوتے ہیں۔
ارضیات کے ماہر ین نے ہیلی کاپٹر سے اتر کر پہاڑی کے کنارے پر ہی بستی سے چند میل کے فاصلے پر اپنا پڑاؤ ڈال لیا اور بستی مکینوں سے ملنے کیلئے پہنچ گئے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں رہنے والے لوگ ہم سے خوفزدہ تھے لیکن کچھ دیر بعد ان کا رویہ نارمل ہوگیا اور انہوں نے ہمیں بستی میں آنے کی اجازت دیدی۔
گروپ کے اسرار پر بستی کے بوڑھے مالک کارپ لائیکوف نے بتایا کہ ان کا تعلق روسی آرتھو ڈوکس مسیحیوں کے ایک فرقے سے تھا جو کمیونسٹ افراد کے مظالم کا شکار رہا ہے۔
کارپ لائیکوف نے بتایا کہ 1936میں ایک دن ایک کمیونسٹ پارٹی کے لوگوں نے کارپ کے بھائی کو اس وقت گولی مار دی جب وہ دونوں ایک ساتھ کھیتوں میں کام کر رہے تھے، اس بات سے خوفزدہ ہوکر کارپ نے اپنے خاندان کو جمع کیا اور جنگل کی جانب بھاگ گیا، خاندان میں اس کی بیوی اکولینا کم عمر بیٹا ساوین اور بیٹی نتالیہ شامل تھی ۔
کارپ لائیکوف اور ان کے خاندان نے کچھ پھلوں اور سبزیوں کے بیج لیے اور جنگل میں جاکر چھپ گئے یہاں تک کہ وہ اس دور دراز جگہ پر پہنچ گئے جسے ماہرین ارضیات نے فضا سے دیکھا تھا۔ اس خاندان کے دو سب سے چھوٹے بچے جو اسی جنگل میں پیدا ہوئے انہوں نے گھر کے افراد کے علاوہ کسی اور انسان کو نہیں دیکھا۔
اس خاندان نے درختوں کی چھال سے جوتے بنائے اور اپنے کپڑوں کو بھنگ کے پتوں سے پیوند کیا تھا جو انہوں نے بیج سے اگائے تھے۔ انہیں اس بات کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ دوسری جنگ عظیم ختم ہوچکی ہے یا انسان چاند پر اترچکا ہے۔
لائیکوف سائبیریا کے کڑک دار سردیوں میں ننگے پاؤں کئی دن تک شکار کرتا تھا، بندوقوں یا تیر کمانوں کے بغیر وہ اپنے شکار کا پہاڑوں پر اس وقت تک پیچھا کرتا تھا جب تک کہ وہ تھک کر مر نہ جائے۔ اس کی بیوی اکولینا 1961میں بھوک سے مرگئی تھی۔
1981 میں کارپ لائیکوف کے چار میں سے تین بچوں کی موت ہوگئی بعد ازاں کارپ 1988 میں وہیں انتقال کرگئے، کارپ لائیکوف کی ایک بیٹی ستر سالہ آگافیہ اب بھی وہیں رہتی ہے اور اسی جنگل میں وہ اپنی باقی زندگی گزارنا چاہتی ہے۔
40 سال سے جنگل میں مقیم خاندان کی کہانی میڈیا کی زینت بننے کے بعد لوگوں نے شدید حیرت کا اظہار کیا جبکہ آگافیہ کو ابھی بھی شہر میں زندگی گزارنے کی پیشکش کی جارہی ہے تاہم وہ کسی صورت جنگل چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔