چترال کی پہلی خاتون نرس لعلِ زمرود 74 سال کی عمر میں انتقال کر گئیں۔
لعلِ زمرود نے 1949 کو اپر چترال کے علاقے میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ دور تھا جب چترال نے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان تو کر دیا تھا مگر روایتی ریاست اب بھی قائم تھی۔اس وقت ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت چترال میں تعلیم، صحت اور انفرسٹرکچر کی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں۔1950 کی دہائی میں بونی کی جامع مسجد میں لڑکوں کے لیے ایک سکول کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس دور میں لڑکیوں کی تعلیم کا تصور ناممکن تھا۔لعلِ زمرود کے چھوٹے بھائی کو سکول میں داخل کرایا گیا۔ چونکہ اس کی عمر کم تھی اس لیے لعل زمرود کو گھر والوں نے بھائی کو سکول لے جانے اور واپس لانے کی ذمہ داری سونپی۔گھر والوں کے بظاہر اس معمولی فیصلے نے لعل زمرود کی زندگی بدل ڈالی۔زمرود فارسی کیوں نہ پڑھ سکیں؟لعل زمرود روزانہ چھوٹے بھائی کو لے کر سکول جاتی، اس کی کتابوں اور بستے کا خیال رکھتی اور چھٹی ہونے پر اسے ساتھ واپس لے آتی۔اس دوران وہ سکول کے کمرۂ جماعت میں بھائی کے ساتھ بیٹھ جاتی۔ پھر آہستہ آہستہ زمرود کو استاد کے پڑھائے گئے سبق میں دلچسپی محسوس ہونے لگی۔ استاد سبق پڑھاتا تو زمرود بھی دوسرے لڑکوں کے ساتھ مل کر پڑھنے لگتی۔ ساتھ ہی اپنے بھائی کی کتابوں سے مدد بھی لیتی۔پھر ایک مسئلہ یہ پیش آیا کہ فارسی کے استاد کو زمرود کا لڑکوں کی جماعت میں بیٹھ کر سبق پڑھنا ناگوار گزرا۔ انہوں نے زمرود کو کلاس میں بیٹھنے سے منع کر دیا۔زمرود بتاتی تھیں کہ ’استاد کے اس رویے کی وجہ سے میں فارسی نہیں پڑھ سکی۔‘’گھر والے کتابیں دیتے تو شاید میں ڈاکٹر بن جاتی‘اس کے باوجود تعلیم میں زمرود کی دلچسپی بڑھتی چلی گئی۔ پھر ایک دن ایسا آیا جب ماں باپ نے فیصلہ کیا کہ بچہ اب اس قابل ہو گیا ہے کہ خود سے سکول جا کر واپس آ سکے۔ اس لیے اس کے ساتھ زمرود کو سکول بھیجنے کی ضرورت نہیں۔زمرود کو یہ جان کر بہت دکھ ہوا۔ وہ تعلیم چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔ اس وقت اس کے سکول کے اساتذہ کام آئے۔ زمرود کی سبق سے دلچسپی اور قابلیت دیکھ کر انہوں نے ان کے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ زمرود کو سکول بھیجتے رہیں۔والدین نے اساتذہ کے مشوروں کا احترام کیا اور زمرود بھائی کے ساتھ سکول جاتی رہیں۔ مگر ان کے پاس پڑھنے کو اپنی کتابیں نہیں تھیں۔ مجبوراً اپنے بھائی کی کتابوں سے مدد لینا پڑتی تھی۔وہ بعد میں مسکراتے ہوئے بتاتی تھیں کہ ’میں اپنے بھائی کی کتابوں سے سبق پڑھ کر نرس بن گئی۔ اگر گھر والے مجھے الگ کتابیں دیتے تو شاید میں ڈاکٹر بن جاتی۔‘بونی کے لڑکوں کے اس سکول سے زمرود نے مڈل پاس کیا۔ تب تک ان کی قابلیت اور تعلیم میں لگن سے گھر والے آگاہ ہو چکے تھے۔ میٹرک کے لیے سکول 75 کلومیٹر دور چترال کے قصبے میں تھا جہاں تک اس وقت گھوڑا دو دن میں پہنچتا تھا۔ زمرود کے گھر والوں نے انہیں چترال میں داخل کرا دیا جہاں وہ میٹرک تک زیرِتعلیم رہیں۔وہ بتاتی تھیں کہ ’میں اپنے بھائی کی کتابوں سے سبق پڑھ کر نرس بن گئی۔‘ (فائل فوٹو: فیس بک، میگپائی نیوز)1963 میں آغا خان کونسل کی طرف سے کراچی سے ایک ٹیم چترال آئی۔ اس ٹیم کے دورے کا مقصد چترال سے تعلیم یافتہ خواتین ڈھونڈنا تھا جنہیں نرسنگ کی تربیت دے کر واپس چترال میں تعینات کیا جا سکے۔اس ٹیم کو چترال کے طول و عرض میں زمرود سمیت صرف چار خواتین ہی مل سکیں جنہیں کراچی کے کھارادر میں موجود جینابائی میٹرنٹی ہوم میں تربیت کے لیے لے جایا گیا۔یہ ادارہ آغا خان ہیلتھ سینٹر فار ویمن اینڈ چلڈرن کے نام سے اب بھی قائم ہے۔کراچی میں دو سال تربیت حاصل کرنے کے بعد لعلِ زمرود اور دوسری نرسز 1967 میں واپس لوٹیں۔زمرود کی پہلی تعیناتی گرم چشمہ میں ہوئی۔ اس وقت ان کی تنخواہ 100 روپے تھی۔ نرسز کی سخت ڈیوٹی اور دوسرے شعبوں میں تعلیم یافتہ خواتین کی مانگ اور بہتر مراعات کی وجہ سے جلد ہی باقی تین نرسز نے نرسنگ کو خیرباد کہ دیا مگر زمرود اگلے 40 برس تک اسی شعبے سے وابستہ رہیں۔وہ دن بھر مریضوں کو دیکھتیں اور راتوں کو اچانک دور کسی گاؤں میں ڈیلیوری کیس ہینڈل کرنے کے لیے بلائی جاتیں۔ انہوں نے پھر بھی لگن سے اپنا کام جاری رکھا۔’کبھی گھوڑے کبھی گاڑی پر پہاڑوں میں سفر‘گرم چشمہ میں ہی ان کی شادی ایک استاد محراب ولی سے ہوئی۔محراب ولی نے آگے جا کر بحیثیتِ مذہبی سکالر نام کمایا، کتابیں تصنیف کیں اور اپنی مذہبی خدمات کی وجہ سے فدائی کے نام سے مشہور ہوئے۔ وہ پوری زندگی زمرود کا سہارا بنے اور ان کے کام کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔زمرود کی کسی علاقے میں پوسٹنگ وہاں کے مریضوں بالخصوص خواتین اور بچوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتی۔ طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے کئی خواتین اور نومولود بچے معمولی بیماریوں سے بھی مر جاتے تھے۔زمرود ایک تربیت یافتہ نرس کی حیثیت سے مریضوں اور ڈیلیوری کے کیس میں آئی خواتین کی نگہداشت اور تیمار داری میں رات دن ایک کرتیں۔وہ کہتی تھیں کہ کبھی کبھار ایک رات میں انہیں ڈیلیوری کے تین تین کیسز اٹینڈ کرنا پڑتے تھے۔ بچوں کی ویکسینیشن کے لیے زیادہ تر پیدل اور کبھی کبھار گھوڑے یا پھر گاڑی پر دور دراز پہاڑی وادیوں میں انہیں سفر کرنا پڑتا تھا۔وہ فخر سے بتاتی تھیں کہ انہوں نے چترال کے مختلف علاقوں میں 23 صحت کے مراکز قائم کرنے میں مدد کی اور دائیوں کو تربیت دی۔لعل زمرود کی طویل خدمات کے بعد ریٹائرمنٹزمرود کی دیکھا دیکھی جلد ہی دوسری خواتین نے بھی نرسنگ کے شعبے کا رخ کرنا شروع کر دیا اور چترال میں زچہ و بچہ کے حوالے سے حالات بتدریج بہتر ہونا شروع ہوئے۔این جی اوز کے ساتھ ساتھ سرکاری طبی مراکز بھی بننا شروع ہوئے۔ 2004 میں چار دہائیوں تک چترال میں نرس کی حیثیت سے خدمات سرانجام دینے کے بعد لعل زمرود ریٹائرڈ ہو گئیں۔ان کی خدمات کے اعتراف میں اسی میٹرنٹی سینٹر میں انہیں مِڈ وائفز کی گریجویشن کی تقریب میں بطورِ مہمان مدعو کیا گیا جہاں انہوں نے 40 سال پہلے خود تربیت حاصل کی تھی۔لعل زمرود کو پورے چترال میں ان کی خدمات کی وجہ سے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ لوگ انہیں ’دائی بیچی‘ یعنی ’دائی خالہ‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔وہ کہتی تھیں کہ ’جو بچے ٹیکہ لگانے کی وجہ سے بچپن میں مجھ سے ڈرتے تھے۔ اب جوان ہو کر میرا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ روز کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مجھے بتاتا ہے کہ میری پیدائش آپ کے ہاتھوں ہوئی تھی۔ لوگ مجھے بے حد عزت دیتے ہیں۔‘خواتین زمرود سے خصوصی محبت سے پیش آتی تھیں۔ وہ نہ صرف خواتین کو طبی مسائل کے حوالے سے مشورے دیتیں بلکہ انہیں بااختیار بننے، تعلیم حاصل کرنے اور اپنی اولاد کی بہترین نگہداشت اور تعلیم و تربیت کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔چترال کی طالبات نرسنگ کے شعبے میں خدماتآج چترال کی طالبات میں نرسنگ کے پیشے کا انتخاب کرنے کا رجحان ملک میں سب سے زیادہ ہے۔یہ طالبات چترال میں نرسنگ سکول نہ ہونے کی وجہ سے پشاور، اسلام آباد اور کراچی جا کر نرسنگ کی تربیت حاصل کرتی ہیں اور نہ صرف اندرونِ ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔چترال سے تعلق رکھنے والی نرسز کی بڑی تعداد حالیہ برسوں میں کویت، دبئی اور مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک کے ساتھ ساتھ یورپ بھی جا رہی ہیں۔چترال کے اندر این جی اوز اور سرکار کے بنائے گئے طبی مراکز اور ہسپتالوں میں ہزاروں نرسز مریضوں کی نگہداشت اور علاج کر رہی ہیں۔لعلِ زمرود ان سب کے لیے مشعلِ راہ تھیں جنہوں نے تنِ تنہا آج سے نصف صدی قبل اس علاقے میں بطورِ نرس لوگوں کی خدمت کی اور وہ دوسری کئی خواتین کے لیے مثال بنیں۔