خیال رہے تقریباً 15 برس اقتدار میں رہنے کے بعد شیخ حسینہ نے 5 اگست کو بطور وزیراعظم استعفیٰ دیا تھا۔ ان کے استعفے کا سبب طلبہ کی کوٹہ مخالف تحریک بنی تھی۔
بنگلہ دیش میں پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے سبب مستعفی ہونے والی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کی صاحبزادی انڈیا میں موجود ہونے کے باوجود اپنی والدہ سے ملاقات نہیں کر پائی ہیں اور اس حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ان کی ایک پوسٹ نے قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے۔
جمعرات کو ایک پوسٹ میں شیخ حسینہ کی صاحبزادی صائمہ واجد نے لکھا کہ ’میرا دل اتنا ٹوٹا ہوا ہے کہ میں اتنے مشکل وقت میں بھی اپنی ماں کو دیکھ نہیں سکتی اور نہ گلے لگا سکتی ہوں۔‘
خیال رہے ہفتوں تک جاری رہنے والے پُرتشدد مظاہروں کے بعد شیخ حسینہ نے 5 اگست کو بطور وزیرِاعظم استعفیٰ دے دیا تھا اور وہ ایک ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر اپنی بہن کے ساتھ انڈیا روانہ ہو گئیں تھیں۔
بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ صائمہ واجد بھی 6 اگست کو انڈیا پہنچ گئیں تھیں۔ اس صورتحال میں کچھ سوالات اُٹھتے ہیں کہ نئی دہلی میں موجودگی کے باوجود آخر صائمہ اپنی والدہ شیخ حسینہ سے ملاقات کیوں نہ کر پائیں، کیا انھیں انڈین حکام نے ملاقات سے روکا؟
جب شیخ حسینہ استعفیٰ دے کر بنگلہ دیش سے انڈیا پہنچیں تو صائمہ واجد تھائی لینڈ میں موجود تھیں۔ صائمہ واجد اس وقت عالمی ادارہ صحت میں جنوب مشرقی ایشیا ریجن کی ڈائریکٹر ہیں، جس کا ہیڈکوارٹر نئی دہلی میں واقع ہے اور اسی وجہ سے ان کا زیادہ تر وقت انڈیا کے دارالحکومت میں ہی گزرتا ہے۔
بی بی سی کی معلومات کے مطابق جس وقت شیخ حسینہ نے استعفیٰ دیا اس وقت ان کی صاحبزادی تھائی لینڈ میں دماغی صحت کے موضوع پر ایک سیمینار میں شریک تھیں۔
بی بی سی کی معلومات کے مطابق شیخ حسینہ کے نئی دہلی پہنچنے کے کچھ گھنٹے بعد ہی ان کی صاحبزادی بھی وہاں پہنچ گئیں تھیں۔
انڈیا میں ایک سرکاری ذرائع نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ صائمہ واجد اقوامِ متحدہ سے منسلک ایک ادارے کی ریجنل ڈائریکٹر ہیں، ہو سکتا ہے اس وجہ سے ان کی ملاقات ان کی والدہ سے نہ کروائی گئی ہو۔
سرکاری ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ’پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ نہیں معلوم کہ صائمہ دہلی میں ہیں یا نہیں لیکن اگر وہ یہاں ہیں تب بھی شیخ حسینہ کی صاحبزادی ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی ایک اور شناخت بھی ہے، وہ ایک بین الاقوامی ادارے کی بڑی افسر ہیں۔ ہو سکتا ہے اس وجہ سے ان کی والدہ سے ملاقات میں رُکاوٹ آئی ہو۔‘
دوسری جانب انڈیا کی حکومت نے پارلیمنٹ میں وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے بیان کے بعد شیخ حسینہ کے حوالے سے کوئی سرکاری بیان نہیں جاری کیا۔
تاہم صائمہ واجد نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں یہ واضح کیا کہ وہ عالمی ادارہ صحت کی ریجنل ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام جاری رکھیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ انڈیا میں رہ کر اپنا کام جاری رکھیں گی۔
یہ بھی پڑھیے
اسی پوسٹ میں انھوں نے بنگلہ دیش میں جانوں کے ضیاع پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ بنگلہ دیش چھوڑنے کے بعد اب تک حسینہ واجد سے ان کے کسی بھی بچے کی ملاقات نہیں ہوئی۔
بی بی سی کو میسر معلومات کے مطابق شیخ حسینہ نئی دہلی کے قریب غازی آباد میں انڈین حکومت کے ایک پارلیمانی مہمان خانے میں رہائش پذیر ہیں۔
شیخ حسینہ کے صاحبزادے سجیب واجد جوئے امریکہ کے علاقے ورجینیا میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ گذشتہ تین، چار دن میں بی بی سی سمیت لاتعداد میڈیا آؤٹ لیٹس کو انٹرویو دے چکے ہیں۔
یہاں یہ بات اب تک واضح نہیں کہ شیخ حسینہ کتنے دن انڈیا میں رہیں گی یا پھر ان کا کسی اور ملک جانے کا ارادہ ہے یا نہیں۔
یہ بات بھی واضح نہیں کہ انھیں کوئی مغربی ملک سیاسی پناہ دے گا یا پھر وہ متحدہ عرب امارات جیسے کسی مشرقِ وسطیٰ کے ملک میں رہائش اختیار کریں گی۔
شیخ حسینہ بنگلہ دیش کی پہلی سربراہ ہیں جنھیں استعفیٰ دینے کے بعد ملک چھوڑا پڑادوسری جانب انڈیا کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے پارلیمنٹ کو بتایا تھا کہ گذشتہ پیر کو شیخ حسینہ نے ’عارضی طور پر‘ انڈیا آنے کی اجازت مانگی تھی۔
تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ ان کا انڈیا میں قیام لمبا ہو جائے گا۔
خیال رہے تقریباً 15 برس اقتدار میں رہنے کے بعد شیخ حسینہ نے 5 اگست کو بطور وزیراعظم استعفیٰ دیا تھا۔ ان کے استعفے کا سبب طلبہ کی کوٹہ مخالف تحریک بنی تھی۔
شیخ حسینہ بنگلہ دیش کی پہلی سربراہ ہیں جنھیں استعفیٰ دینے کے بعد ملک چھوڑا پڑا۔