صدمے میں مبتلا بنگلہ دیش کا مستقبل ’اب طلبہ کے ہاتھوں میں ہے‘

ڈھاکہ میں شیخ حسینہ کا تختہ الٹنے کے بعد سے پولیس اہلکار ہڑتال پر ہیں۔ مگر اس دوران ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے طلبہ نے سڑکوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔
بنگلہ دیش
BBC
ذوالقرنین راحت اور دیگر طلبا نے فی الوقت ڈھاکہ کی سڑکوں پر نظام سنبھال رکھا ہے

ڈھاکہ میں شیخ حسینہ کا تختہ الٹنے کے بعد سے پولیس اہلکار ہڑتال پر ہیں۔ مگر اس دوران ٹریفک کو رواں دواں رکھنے کے لیے طلبہ نے سڑکوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔

بنگلہ دیش کے دارالحکومت کی بھیڑ والی سڑکوں پر جہاں بڑی تعداد میں اہلکار تعینات رہتے ہیں اب پولیس کہیں نظر نہیں آتی۔

کئی ہفتوں کی بدامن، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، کے بعد ایسا لگتا ہے کہ صرف طلبہ اور کچھ نیم فوجی دستے امن و امان کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نوبیل انعام یافتہ محمد یونس کے زیرِ انتظام ایک عبوری حکومت قائم ہوچکی ہے۔

مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن میں ہونے والی ہلاکتوں کے بعد اب پولیس خود اپنی حفاظت کے بارے میں خوفزدہ ہے۔

پولیس حکومت مخالف ان مظاہروں کو کچلنے میں ناکام رہی جو گذشتہ ماہ سول سروس ملازمتوں کے کوٹا پر شروع ہوئے تھے۔

حسینہ واجد کےانڈیا جانے کے بعد ملک میں حالات پُرسکون ہیں لیکن اقتدار کے خلا کے دوران وقفے وقفے سے لوٹ مار اور تشدد کی خبریں آتی رہتی ہیں۔

بہت سے بنگلہ دیشی خاص طور پر نوجوانوں کو امید ہے کہ ملک ایک اہم موڑ پر ہے۔

اوپن یونیورسٹی کی طالبہ 21 سالہ نورجہاں ملی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اظہار رائے کی آزادی چاہتی ہوں۔ میں بدعنوانی سے پاک ملک چاہتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ لوگوں کو احتجاج کرنے کا حق حاصل ہو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں غیر یقینی کا شکار ہوں کہ ملک کہاں جا رہا ہے کیونکہ حکومت بدل گئی ہے لیکن پتا نہیں امتیازی سلوک برقرار رہے گا یا نہیں۔ مجھے تب ہی خوشی ہوگی جب مطالبات پورے ہوں گے۔‘

ملک اس صدمے سے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے چونکہ اب اقتدار دیرینہ حکمران کے ہاتھوں سے چھین لیا گیا ہے۔

حالیہ بدامنی میں 400 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے جنھیں سکیورٹی فورسز نے گولیاں ماریں۔ سنہ 1971 میں ملک کو آزادی دلانے والی جنگ کے بعد سے یہ سب سے پُرتشدد واقعات تھے۔

ہوائی اڈے پر ایک کارکن نے مجھے میرا بیگ تھماتے ہوئے بتایا کہ حالات بہت خراب ہیں اور حکومت نے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا ہے۔

انھوں نے کہا ’چھ، سات اور آٹھ سال کی عمر کے بہت سے بچے مارے گئے۔‘

ہوائی اڈے کے باہر نارنجی رنگ کی ہائی ویز جیکٹ پہنے طلبہ ٹریفک کی نگرانی کر رہے تھے۔

ڈرائیور نے بتایا کہ ’یہاں کوئی پولیس نہیں ہے۔ صرف طالب علم ہیں۔ کوئی حکومت نہیں ہے طلبہ 100 فیصد سکیورٹی کر رہے ہیں۔‘

انھوں نے طالب علموں سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ایک اچھا کام کیا ہے۔

بنگلہ دیش
BBC
نورجہاں ملی آزادی اظہار اور کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہیں

ہماری گاڑی آگے بڑھی تو طلبا کا ایک گروپ گاڑیوں کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لیے پلاسٹک کے کونز لگا رہا تھا۔

یونیورسٹی آف ایشیا پیسیفک میں بزنس ایڈمنسٹریشن کے طالب علم ذوالقرنین راحت نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں یہاں اپنے بھائیوں کی حفاظت اور ٹریفک میں مدد کرنے کے لیے آیا ہوں۔ شروع سے ہی میں نے کوٹہ تحریک میں حصہ لیا جو ایک بڑی تحریک میں بدل گئی۔ ہمیں خوشی ہے کہ ہم نے آمرانہ حکومت کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ہم نے اپنی آزادی اور خودمختاری حاصل کر لی ہے۔‘

انھیں یقین ہے کہ عبوری رہنما نوبیل انعام یافتہ محمد یونس چند ماہ بعد طلبہ، وکلا اور عام لوگوں کی مدد سے حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

22 سالہ نوجوان کا کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش کا مستقبل طلبہ رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہے۔ انشا اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘

محمود الحسن اسی کورس میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وہ کہتیے ہیں ’میں جمہوریت چاہتا ہوں تاکہ زندگی کے تمام شعبوں کے لوگوں کو مساوی مواقع اور مساوی حقوق مل سکیں۔‘

وہ ایک ایسے رہنما کی امید کر رہے ہیں جو ان چیزوں کو ممکن بنا سکے۔

محمد یونس کو بنگلہ دیش کے صدر نے منگل کی رات عبوری رہنما مقرر کیا تھا جو طالب علموں کا ایک اہم مطالبہ تھا۔ طلبہ نے فوج کی قیادت والی حکومت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

فرانس میں سرجری کروانے کے بعد ملک آمد پر محمد یونس اپنے عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔

بنگلہ دیش
Reuters
پیر کو وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر ہجوم کے حملے کےمنظر

انھوں نے بدھ کے روز پیرس چارلس ڈی گال ہوائی اڈے پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں وطن واپس جا کر دیکھوں گا کہ کیا ہو رہا ہے اور ہم اس مشکل سے نکلنے کے لیے خود کو کس طرح منظم کر سکتے ہیں۔‘

شیخ حسینہ کے حامیوں کی جانب سے لوٹ مار اور انتقامی حملوں کی اطلاعات کے بعد انھوں نے لوگوں پر زور دیا ہے کہ وہ ہر قسم کے تشدد سے گریز کریں اور متنبہ کیا کہ اگروہ باز نہ آئے تووہ سب کچھ تباہ کر دیں گے۔

بدھ کے روز قوم سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ محمد یونس ’ہمیں ایک خوبصورت جمہوری عمل کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوں گے اور ہم اس سے فائدہ اٹھائیں گے۔‘

حالات کیا رُخ اختیار کرتے ہیں اس کا تعیّن ابھی ہونا باقی ہے لیکن جہاں تک ٹریفک مینجمنٹ کی بات ہے طالب علم اچھا کام کرتے نظر آتے ہیں۔

بی بی سی کو جنوری کے مقابلے میں صورتحال بہت بہتر محسوس ہوئی جب ہم نے متنازع انتخابات کے لیے دورہ کیا تھا۔ مرکزی اپوزیشن نے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی عوامی لیگ چوتھی بار اقتدار میں آگئی تھی۔

حالات معمول کے مطابق لگ رہے تھے۔ ہم نے لوگوں کے ایک گروپ کو ایک تعمیراتی منصوبے کے لیے سریّے کھینچتے ہوئے دیکھا۔

محمد شاپن 24 سال سے ڈھاکہ میں ڈرائیور ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ٹریفک کا نظام اب بہتر ہے۔ طالب علم اچھی طرح سے انتظام کر رہے ہیں۔ یہ اس وقت سے بہتر ہے جب پولیس یہاں تھی۔ آج کل سے زیادہ مصروف ہے۔‘

وہ عبوری رہنما کے انتخاب کی حمایت کرتے ہیں۔ ’جیسا کہ محمد یونس بین الاقوامی سطح پر مشہور ہیں وہ کسی بھی ممکنہ معاشی تباہی کو کم کرسکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ’ میں بین الاقوامی قرضوں کے بارے میں فکرمند ہوں کہ بنگلہ دیش ادائیگیوں کا انتظام کیسے کر سکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ وہ اچھا کام کر سکتے ہیں۔‘

آنے والے چیلنجز بہت بڑے ہیں جو صرف معاشی نہیں ہوں گے۔

پیر کو شیخ حسینہ کے 15 سالہ اقتدار کے خاتمے کے بعد اب بہت سے زخم بھرنے باقی ہیں۔

ان کی حکومت کو معاشی اصلاحات کا سہرا دیا جاتا ہے جس نے بنگلہ دیش میں بہت سے لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا ہے۔ لیکن ان پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا بھی الزام تھا جن میں متعدد ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیاں بھی شامل تھیں۔

بہت سے لوگوں کے پاس بتانے کے لیے کہانیاں ہیں کہ ان کے کنبوں پر کیا گزری۔ میں نے ڈھاکہ جانے والے طیارے میں چند منٹ کے لیے آنکھیں بند کیں اور جب میں نے انھیں کھولا تو مجھے سامنے والی سیٹ کی پچھلی جیب میں ایک ہاتھ سے لکھا ہوا نوٹ ملا۔

اس پر کسی نے لکھا تھا کہ ان کے والد کو شیخ حسینہ اور ان کے بھائی نے اغوا کیا تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کی حفاظت کے لیے گذشتہ آٹھ سالوں سے خود ساختہ جلاوطنی میں تھے۔

نوٹ میں کہا گیا کہ اب وہ اپنے والد کی قبر پر جانے کے لیے ’ایک آزاد ملک‘ میں واپس آ رہے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US