توہینِ مذہب کے مقدمات درج کروانے والا مبینہ گینگ اور 'ایمان' نامی پُراسرار کردار: اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکمنامے میں کیا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہینِ مذہب کے مقدمات کے سلسلے میں کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے دائر درخواستوں پر اپنا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمشین کی تشکیل کی حد تک تو یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے لیکن یہ مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔
عدالت
Getty Images

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے توہین مذہب سے متعلق فیکٹ فائنڈنگ کمیشن کی تشکیل سے متعلق حکم نامے میں وفاقی حکومت کو 30 روز میں یہ کمیشن قائم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ کمیشن کے ارکان اس بات کا تعین کریں گے کہ توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال تو نہیں ہو رہا۔

کمیشن کی تشکیل سے متعلق درخواستوں میں بنائے گئے فریقین کا کہنا ہے کہ وہ اس عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔

یاد رہے کہ 100 سے زیادہ درخواست گزاروں نے کمشین تشکیل دینے کے لیے پٹیشن دائر کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے رشتہ داروں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج ہیں اور ان میں سے متعدد کو ٹرائل کورٹ کی جانب سے سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں جن کے خلاف اپیلیں مختلف ہائی کورٹس میں زیرِ سماعت ہیں۔

ان افراد کے خلاف سوشل میڈیا پر ایسا مواد شائع یا شیئر کرنے کا الزام ہے جو مبینہ طور پر توہینِ مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔

درخواست گزاروں کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ ایک مبینہ ’گینگ‘ نے ان کے رشتہ داروں کو ’ہنی ٹریپ‘ کر کے ان سے یہ مواد شیئر کروایا۔

درخواست گزاروں نے اپنی درخواستوں میں پنجاب پولیس کی سپیشل برانچ اور نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کی سنہ 2024 میں شائع کی گئی رپورٹس کو بنیاد بنایا تھا۔

24 جنوری 2024 کو سپیشل برانچ کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایک مشکوک گینگ ایف آئی اے اہلکاروں کی مبینہ ملی بھگت کے ساتھ نوجوانوں کو توہینِ مذہب کے مقدمات میں پھنسا کر ان سے رقم وصول کرتا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی تھی کہ اس حوالے سے ’انکوائری کر کے اس گینگ کی مشکوک ہتھکنڈوں کو بے نقاب کیا جائے۔‘

دوسری جانب نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس نے بھی اس رپورٹ کی تائید کرتے ہوئے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ ’نوجوان لڑکوں کو مختلف نام استعمال کرنے والی خواتین کے ذریعے نشانہ بنایا گیا اور انھیں آن لائن ایسا مواد شیئر کرنے کے لیے پھنسایا گیا جو توہینِ مذہب کے زمرے میں آتا ہے، جس سے ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔‘

ان میں سے کچھ افراد کو ٹرائل کورٹ سے سزائیں بھی سنائی جا چکی ہیں جبکہ کچھ ابھی تک جیلوں میں قید ہیں۔

عدالت نے توہینِ مذہب کے مقدمات کے سلسلے میں کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے دائر درخواستوں پر اپنا حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمشین کی تشکیل کی حد تک تو یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے لیکن یہ مقدمہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

خیال رہے کہ موجودہ حکم نامہ مقدمے کی 42ویں سماعت پر دیا گیا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی لکھا ہے کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران ’عدالت کبھی بھی اس نتیجے پر نہیں پہنچی کہ جن افراد کے خلاف توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے گئے ہیں وہ تمام بے قصور ہیں۔‘

عدالتی حکم نامے میں مبینہ ’گینگ‘ سے متعلق کیا کہا گیا ہے؟

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ’جوں جوں ان درخواستوں پر عدالتی کارروائی آگے بڑھتی گئی تو توہینِ مذہب کے مقدمات درج کروانے والے مبینہ گینگ کے بارے میں شکوک و شہبات کو مزید تقویت ملتی گئی اور اس ضمن میں درخواست گزاروں کی جانب سے کچھ ثبوت بھی عدالت کے سامنے رکھے گئے جن میں پولیس کے ادارے سپیشل برانچ کی رپورٹ کے علاوہ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹس بھی شامل ہے اور یہ رپورٹس کچھ افراد اور ایف آئی اے کے اہلکاروں کے مبینہ گٹھ جوڑ کو ظاہر کرتی ہیں۔‘

عدالت نے اپنے حکم نامے میں مزید کہا ہے کہ یہ معاملہ دو پرائیویٹ پارٹیوں کے درمیان نہیں تھا جبکہ ان درخواستوں میں بنائے گئے فریق نے اس معاملے کو اسی تناظر میں ہی دیکھا۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا ہے کہ ’توہینِ مذہب کے چار سو مقدمات درج ہیں جن میں سات سو افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان افراد پر الزام ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر مبینہ طور پر ایسا مواد شیئر کرنے کے مرتکب ہوئے جو توہین مذہب کے قانون کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔‘

عدالت نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا کہ ایسے مقدمات میں گرفتار ہونے والے ملزمان کا موقف ہے کہ ان سے ان مقدمات کی تفتیش صحیح انداز میں نہیں کی گئی جبکہ کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے ان درخواستوں میں بنائے گئے فریق کا کہنا تھا کہ تفتیش کے حوالے سے درخواست دینے کا اختیار ملزم کے پاس ہے اور ملزم کا یہ اختیار نہ ہی اس کے والدین اور نہ ہی ان کے رشتہ دار استعمال کر سکتے ہیں۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ ’وفاقی حکومت نے گذشتہ برس سپیشل برانچ اور نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی جانب سے اس مبینہ گینگ سے متعلق جاری ہونے والی رپورٹس کی روشنی میں ایک ’پراسرار کردار‘ ایمان نامی خاتون سے کبھی تفتیش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی جو کہ توہین مذہب کے مقدمات کے اندراج میں ایک کردار ہے۔‘

عدالت کا کہنا تھا کہ ’توہین مذہب کے مقدمات میں گرفتار ہونے والے متعدد ملزمان جو کہ ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں تھے اور وہ مختلف جیلوں میں قید تھے انھوں نے نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے نمائندوں کو بتایا تھا کہ انھیں توہینِ مذہب پر ایک ایمان نامی لڑکی نے اکسایا تھا۔‘

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے اپنے حکم نامے میں سپین کے ایک موبائل نمبر کا بھی ذکر کیا ہے جو کہ ’ایمان نامی لڑکی کے زیرِ استعمال تھا اور جس کے بارے میں ایک وکیل راؤ عبدالرحیم کا کہنا تھا کہ انھیں یہ موبائل نمبر سپین میں ان کے کزن نے دیا تھا تاہم جب راؤ رحیم ایڈووکیٹ سے یہ پوچھا گیا کہ ان کا یہ نمبر ایمان نامی لڑکی کے زیرِ استعمال کیسے آیا تو وہ اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔‘

عدالت نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا کہ ’ایمان نامی لڑکی کا منظر سے غائب ہو جانا بھی باعث تشویش ہے اور بالخصوص ان درخواستوں کی سماعت کے دوران جب ایمان نامی لڑکی کا کردار کھل کر سامنے آ گیا تو نیشنل سائبر کرائم انوسٹیگیشن ایجنسی کے حکام نے عدالتی حکم پر مذکورہ لڑکی کو عدالت میں پیش کرنے کے لیے محتلف مقامات پر ریڈ کیا تاہم انھیں اس ضمن میں کامیابی نہیں ملی۔‘

اپنے حکم نامے میں عدالت نے اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ ’ایمان نامی لڑکی اپنے زیر استعمال موبائل نمبر سے راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کے ساتھ رابطے میں تھی اور راؤ عبدالرحیم کے بارے میں سپیشل برانچ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات کا اندراج کروانے والے مبینہ گینگ کی سربراہی کرتا ہے۔‘

عدالت نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا ہے کہ ’ان درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک فیس بک کی آئی ڈی اور اس کا پاسورڈ توہین مذہب کے متعدد مقدمات کے اندارج میں استعمال کیے گئے۔ عدالت نے اس پر بھی تشویش ظاہر کی کہ ایک ہی فیس بک کی آئی ڈی اور اس کا پاسورڈ دیگر مقدمات میں کیسے استعمال ہو سکتا ہے۔‘

عدالت نے اپنے حکم نامے میں لیہ یونیورسٹی کے باہر توہینِ مذہب کے مقدمے میں ایک ملزم کی گرفتاری کا بھی حوالہ دیا جس کی فوٹیج کمرہ عدالت میں چلائی گئی اور اس فوٹیج میں ایک گاڑی بھی نظر آ رہی تھی اور ویڈیو میں نظر آنے والی اس گاڑی کی رجسٹریشن کے بارے میں راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ گاڑی کی رجسٹریشن تو ان کے نام پر ہے لیکن اس ویڈیو میں نظر آنے والی گاڑی ان کی نہیں ہے۔

police
Getty Images

مقدمات کی تفتیش پر سوال اور نام نہاد ’لیگل کمیشن آن بلاسفیمی‘ کا ذکر

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ ’ان درخواستوں کی سماعت کے دوران ایف آئی اے کے بہت سے افسران نے تسلیم کیا کہ بہت سے مقدمات میں تفتیشی افسران نے مدعی مقدمہ کی جانب سے دیے گئے ثبوتوں کے فرانزک نہیں کروائے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ سماعت کے دوران ایف آئی اے کے افسران سے یہ بھی پوچھا گیا کہ وہ ان مقدمات کی تفتیش وہاں تک کیوں نہیں لے کر گئے جہاں پر یہ معلوم ہو سکے کہ توہین مذہب کا مواد کون تیار کرتا ہے۔‘

عدالت نے یہ بھی کہا کہ ’ایسے مقدمات کی تفتیش کے دوران اس بات کو مد نظر ہی نہیں رکھا گیا کہ آیا ملزم کی نیت توہین مذہب کرنے کی تھی یا نہیں؟‘

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کمرہ عدالت میں چلائی جانے والی ایک اور ویڈیو کا بھی ذکر کیا ہے ’جس میں توہینِ مذہب کے مقدمات درج کروانے والے مبینہ گینگ کے لوگ اپنے طور پر لوگوں کو غیر قانونی طور پر گرفتار کرتے ہیں اور بعد ازاں ریکارڈ میں ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایف آئی اے نے ملزمان کو گرفتار کیا ہے۔‘

اس حکم نامے میں ایک اور ویڈیو کا بھی ذکر کیا گیا جس میں توہین مذہب کے ایک ملزم کی اولاد سے پیسوں کا تقاضا کیا گیا اور عدم ادائیگی پر اس کے خلاف بھی توہین مذہب کا مقدمہ درج کروانے کی دھمکی دی گئی۔

اس حکم نامے میں عبداللہ شاہ نامی نوجوان کے قتل کے مقدمے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جس کے خلاف راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ نے توہین مذہب کا مقدمہ درج کروایا تھا۔ اس حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ عبداللہ شاہ قتل کے مقدمے کی تفتیش کے حوالے سے پولیس کے چالان میں یہ کہا گیا ہے کہ عبداللہ شاہ کے قتل سے پہلے اس کی آخری بات چیت راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ سے ہی ہوئی تھی۔

عبداللہ شاہ کے والد نے اسلام آباد کی مقامی عدالت کو یہ لکھ کر دیا تھا کہ انھوں نے اپنے تئیں اس مقدمے کی تفتیش کی ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ راؤ عبدالرحیم اس کے بیٹے کے قتل میں ملوث نہیں ہے۔

عدالت نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے اس بارے میں رپورٹ طلب کی ہے کہ کیسے پرائیویٹ شخص اپنے طور پر کسی مقدمے کی تفتیش کر کے عدالت میں کسی شخص کے گناہ گار اور بے گناہ قرار دینے سے متعلق بیان دے سکتا ہے جبکہ قانون کے مطابق یہ استحقاق پولیس کے پاس ہے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں راؤ عبدالرحیم ایڈووکیٹ کے کلرک کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ (کلرک) خود کو خاتون ظاہر کر کے مختلف واٹس ایپ گروپس میں چیٹ کرتا اور پھر اسی کی بنیاد پر توہینِ مذہب کے مقدمات کے اندراج کے لیے درخواستیں دائر کی جاتیں۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا ہے کہ توہین مذہب کے مقدمات میں ایک ہی قسم کا مواد بہت سے خدشات کو جنم دیتا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی کہا کہ نام نہاد ’لیگل کمیشن آن بلاسفیمی‘ جو کہ خود کو این جی او یعنی فلاحی تنظیم کہتی ہے اور اس کمیشن کے سربراہ راؤ عبدالرحیم کر رہے ہیں، یہ نہ تو فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) اور نہ ہی سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) میں رجسٹرڈ ہے اور اس نام نہاد کمیشن کی سرگرمیوں پر سوالیہ نشان ہیں۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں دوران حراست ان چار افراد کی ہلاکت کا ذکر بھی کیا جن کے خلاف توہین مذہب کے مقدمات درج تھے۔ حکم نامے کے مطابق ’دوران حراست ان افراد کی ہلاکت سے متعلق نہ کوئی جوڈیشل اور نہ ہی کوئی انتظامی کارروائی عمل میں لائی گئی جبکہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں جو ویڈیو چلائی گئی اس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ مرنے والے کے جسم پر زحموں کے نشانات ہیں۔‘

جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے کمشین کی تشکیل کے حوالے سے ان درخواستوں کی سماعت کا حکم نامہ شروع کیا تو انھوں نے ان درخواستوں میں بنائے گئے فریق اور کچھ وکلا کے ردعمل پر افسوس کا اظہار کیا کہ جب وہ ان درخواستوں پر حکمنامہ لکھوا رہے تھے تو انھیں تین بار روکنے کی کوشش کی گئی جبکہ عدالت کا احترام ہر حال میں مقدم رکھا جانا چاہیے اگرچہ کسی کو اس فیصلے سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔

عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت کے دوران مختلف وکلا کو ان کے رویے پر جاری کیے گئے توہین عدالت کے نوٹسز کو نمٹا دیا ہے۔

کمیشن کی تشکیل حوالے سے کیا کہا گیا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین مذہب کے مقدمات کی تحقیقات کے لیے کمیشن کی تشکیل دینے کے حوالے سے اس سال 31 جنوری کو جو حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اس کا اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے اور وہی ایسا کرے گی تاہم کیونکہ ایڈشنل اٹارنی جنرل نے اس حوالے سے رہنمائی مانگی تھی لہٰذا ان کی درخواست کو زیر غور لایا گیا۔

عدالت نے 31 جنوری کو اپنے حکم نامے میں کمیشن کی تشکیل کے حوالے سے تفصیلات بتائی تھیں۔ اس حکمنامے میں کہا تھا گیا کہ ’اس کمیشن کا سربراہ کسی بھی آئینی کورٹ جس میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس بھی آتے ہیں کا سربراہ ہو گا جبکہ ایف آئی اے کا ایک ریٹائرڈ افسر جس کو سائبر کرائم کا تجربہ ہو وہ اس کا رکن ہو گا۔

’اس کے علاوہ کوئی روشن خیال رہنما جس نے مفاد عامہ کے کام کیے ہوں وہ اس کا رکن ہوگا جبکہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں مہارت رکھنے والہ شخص بھی اس کمیشن کا رکن ہو گا۔‘

اس کمیشن کے ضابطہ کار کے بارے میں عدالت نے بتایا تھا کہ ’کمیشن کے ارکان اس بات کا تعین کریں گے کہ توہین مذہب کے قانون کا کہیں غلط استعمال تو نہیں ہو رہا۔‘

عدالت نے کہا تھا کہ ’اس کے علاوہ کمیشن اس طریقہ کار کی بھی جانچ پڑتال کرے جس کے تحت توہینِ مذہب کے مقدمات درج کیے گئے اور کمیشن اس معاملے کو بھی دیکھے کہ کون کون اس میں ملوث ہے اور ان کے نام سامنے لائے جائیں۔‘

ان درخواستوں میں بنائے گئے فریقین کی جانب سے بھی ایک شق کمیشن کے لیے بنائے ضابطہ کار میں شامل کی گئی کہ کمیشن اس بات کا بھی تعین کرے کہ ’آیا توہینِ مذہب کسی منظم طریقے سے تو نہیں کی جا رہی اور اس میں بیرونی فنڈنگ تو نہیں دی جا رہی۔‘

اس حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ کمیشن کسی بھی معاملے کی تحقیقات کے لیے کسی بھی ادارے کے افسر کی خدمات حاصل کر سکتا ہے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ کمیشن کے ارکان اگر یہ سمجھیں کہ کوئی معاملہ حساس ہے تو وہ اس کی کارروائی ان کیمرہ کر سکتے ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کمیشن اپنی کارروائی کو اوپن رکھے۔

عدالت نے کمیشن کی تشکیل سے متعلق ان درخواستوں کو ری لسٹ کر دیا ہے اور عدالتی حکم کے مطابق اب ان درخواستوں پر اگلی سماعت اس سال 15 دسمبر کو ہو گی۔

عدالت نے سماعت کے دوران اپنے حکم نامے میں کہا تھا کہ یہ کمیشن چار ماہ میں تحقیقات کر کے اپنی سفارشات مرتب کرے اور اگر انھیں اس ضمن میں مزید وقت درکار ہو تو وہ عدالت میں درخواست دے سکتے ہیں۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں کہا ہے کہ سماعت کے دوران ان درخواستوں میں بنائے گئے فریق کا کہنا تھا کہ عدالت کے پاس یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ وفاقی حکومت کو توہینِ مذہب کے مقدمات کا جائزہ لینے کے لیے کمیشن کی تشکیل کا حکم دے۔

عدالت کا کہنا تھا کہ توہینِ مذہب کے مقدمات کے اندراج میں وفاقی تحقیقاتی ادارے یعنی ایف آئی اے اور کچھ افراد پر آپس میں مبینہ گٹھ جوڑ کے الزامات موجود ہیں جس کے بارے میں مزید تفتیش کی ضرورت ہے۔سو

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج نے اپنے حکم نامے میں یہ بھی لکھا کہ ان درخواستوں کی سماعت کے دوران یہ معاملہ بھی زیرِ بحث آیا کہ انکوائری کمیشن بنانے کی بجائے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جائے لیکن چونکہ جے آئی ٹی میں تحقیقاتی ادارے کے افسران بھی شامل ہوں گے اور اس حوالے سے ان افسران پر اندرونی دباؤ کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اس لیے ان حالات کو دیکھتے ہوئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن بنانے کا ہی فیصلہ کیا گیا ہے۔

حکم نامے کے مطابق ’جے آئی ٹی کے لیے اس مقدمے کی لائیو سٹریمنگ کرنا بھی ممکن نہ ہوتا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ اس سے بڑھ کر اور کون سا ایسا مقدمہ ہو گا جو عوامی مفاد کا مقدمہ کہلائے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts