’دہشتگردوں کے ساتھ سیلفی بنانا جرم ہے‘: حکومتِ بلوچستان کو یہ اشتہار دینے کی ضرورت کیوں پڑی؟

حکومت بلوچستان نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کالعدم تنظیموں کی کارروائیوں کے دوران ان کے ساتھ سیلفی، ویڈیوز یا تصاویر بنانے سے گریز کریں کیونکہ یہ نہ صرف جرم ہے بلکہ سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کی صورت میں اُن لوگوں کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔
کوئٹہ-کراچی شاہراہ
BBC
اطلاعات ہیں کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے بارہا کوئٹہ سے کراچی جانے والی شاہراہ پر ناکہ بندی کی گئی

حکومتِ بلوچستان نے لوگوں کو خبردار کیا ہے کہ وہ کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کے لوگوں کے ساتھ سیلفی، ویڈیوز یا تصاویر بنانے سے گریز کریں کیونکہ یہ جرم ہے اور سکیورٹی فورسز کے آپریشنز کی صورت میں کسی نقصان کے وہ خود ذمہ دار ہوں گے۔

مختلف اضلاع کے ڈپٹی کمشنروں کی جانب سے تنبیہی اعلامیوں کے بعد اب حکومت بلوچستان کی جانب سے ملک کے معروف اخبارات میں اس سلسلے میں ایک بڑا اشتہار بھی دیا گیا ہے۔

حکومت کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف جوابی کارروائی کے دوران اگر کسی فرد کو جانی یا مالی نقصان پہنچتا ہے تو اس کی مکمل ذمہ داری اسی فرد پر عائد ہوگی۔

خیال رہے کہ گذشتہ ایک ڈیڑھ سال سے بلوچستان میں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں نے شہروں میں بڑی تعداد میں آنے اور وہاں کارروائی کرنے کے علاوہ شاہراہوں پر ناکہ بندی کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

ان واقعات سے متعلق سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی بعض ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مبینہ عسکریت پسند لوگوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہیں یا عام لوگ ان کے ساتھ ویڈیوز بناتے ہیں۔

اگرچہ ان ویڈیوز اور تصاویر کی آزادانہ تصدیق نہیں کی گئی تاہم بعض مبصرین یہ خدشہ ظاہر کرتے ہیں کہ بلوچستان کے کچھ لوگوں میں بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے لیے ہمدردی ہو سکتی ہے اور وہ اسی لیے ان کے قریب آتے ہیں۔

تاہم سرکاری حکام اس سے اتفاق نہیں کرتے ہیں بلکہ وہ اس کی وجہ خوف کو قرار دیتے ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ ’دہشت گرد عام لوگوں کو شیلڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یہ اشتہار اس لیے جاری کیا گیا ہے تاکہ ان کے خلاف کارروائی کے دوران عام لوگوں کا نقصان نہ ہو۔‘

شاہراہوں پر عسکریت پسندوں کی ناکہ بندی کے واقعات

بلوچستان میں جاری مسلح شورش کا آغاز 2000 کے اوائل میں ہوا تاہم 2018 کے بعد سے اس میں بعض نئے رحجانات سامنے آئے ہیں۔

ماضی میں ایسے کئی واقعات دیکھے گئے ہیں کہ چار سے آٹھ بلوچ عسکریت پسند ’اجتماعی خودکش حملے‘ کے طور پر شہری علاقوں میں سکیورٹی فورسز سمیت دیگر اہداف کو نشانہ بناتے ہیں۔ بعض حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے قبول کی گئی ہے۔

اسی طرح 2024 سے شاہراہوں پر ناکہ بندی کرنے اور شہری آبادیوں میں داخل ہونے کا رجحان بھی سامنے آیا ہے۔

رواں ماہ کے دوران کوئٹہ سے ملحقہ ضلع مستونگ کے ہیڈکوارٹر مستونگ شہر میں عسکریت پسندوں کی ایک بڑی تعداد آئی اور انھوں نے تحصیل آفس اور تین بینکوں کو نقصان پہنچایا۔

اس سے قبل رواں سال کے اوائل میں ضلع خضدار کے نسبتاً دو کم آبادی والے شہروں اورناچ اور زہری میں بھی عسکریت پسند داخل ہوئے جہاں انھوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے علاوہ لوگوں سے خطاب بھی کیا۔

زہری سے تعلق رکھنے والے ایک شہری محمد اکرم (فرضی نام) نے بتایا کہ مسلح افراد میں سے ایک نے براہوی زبان میں جو خطاب کیا، اسے وہاں جمع ہونے والے عام لوگوں کی بڑی تعداد نے آخر تک سنا۔

بعض اوقات یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ کالعدم تنظیموں کے ارکان کے ساتھ نہ صرف ملتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ سیلفیاں اور ویڈیوز بھی بناتی ہیں جنھیں بعد ازاں سوشل میڈیا پر شیئر کیا جاتا ہے۔

گذشتہ ماہ عیدالاضحی کے تیسرے روز ضلع نوشکی کے علاقے شیر جان آغا کے مقام پر کالعدم بی ایل اے کے جنگجوؤں نے ناکہ بندی کی اور سیکورٹی فورسز کی گاڑیوں پر حملہ کیا تھا۔

اس علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک شہری محمود خان (فرضی نام) نے بتایا کہ جب مسلح افراد نے شیر جان آغا کے مقام پر اچانک آ کر کوئٹہ-کراچی شاہراہ کی ناکہ بندی کی تو وہاں پِکنک کے لیے آنے والے متعدد نوجوان ان کے پاس جمع ہوئے اور ان کے ساتھ ویڈیوز اور تصاویر بنائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بعض لوگوں نے پِکنک کے لیے لائی گئی کھانے پینے کی اشیا بھی عسکریت پسندوں میں تقسیم کی تھیں۔

کوئٹہ، کراچی روڈ
BBC
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’جب دہشت گرد شہروں میں یا شاہراہوں پر آتے ہیں تو وہ عام لوگوں کو شیلڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں‘

حکومت بلوچستان کو تنبیہ جاری کیوں کرنا پڑی؟

چند ہفتے قبل دو اضلاع گوادر اور مستونگ کے ڈپٹی کمشنروں کی جانب سے جاری اعلامیوں میں لوگوں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ وہ عسکریت پسندوں کے قریب نہ جائیں لیکن 14جولائی کو حکومت بلوچستان کی جانب سے اس سلسلے میں باقدہ اخبارات میں اشتہارات جاری کر دیا گیا۔

نصف صفحے پر مشتمل اس بڑے اشتہار کے مندرجات کے مطابق 'بلوچستان کے بعض علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران بعض شہری دہشت گردوں کے ہمراہ سیلفی، ویڈہوز اور تصاوہر بنواتے ہیں۔ یہ عمل نہ صرف غیر ذمہ دارانہ ہے بلکہ ایسے افراد تعزیرات پاکستان کے تحت معاون جرم تصور کیے جائیں گے۔'

لوگوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’دہشت گردی کے دوران یا بعد ازاں کسی بھی مشتبہ جگہ پر موجودگی، ہجوم لگانا یا ویڈیو یا فوٹو بنانا نہ صرف قانونی کارروائی کا موجب بن سکتا ہے بلکہ فورسز کے فوری ردعمل کے دوران ایسے افراد گولی کا نشانہ بن کر اپنی جان بھی گنوا سکتے ہیں۔‘

اشتہار میں کہا گیا ہے کہ رسپانس میکانزم کے تحت کی جانے والی کارروائیوں کے دوران ’اگر کسی فرد کو کوئی جانی یا مالی نقصان پہنچتا ہے تو اس کی مکمل ذمہ داری متعلقہ فرد پر عائد ہوگی۔‘

عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ سکیورٹی فورسز سے مکمل تعاون کریں اور کسی بھی غیر ضروری یا مشتبہ سرگرمی سے گریز کریں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ جب ’دہشت گرد شہروں میں یا شاہراہوں پر آتے ہیں تو وہ عام لوگوں کو شیلڈ کے طور پر استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائی میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔‘

انھوں نے حال ہی میں مستونگ میں پیش آنے والے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار حملہ آوروں کے بہت قریب پہنچ گئے تھے لیکن عام لوگوں کو بطور شیلڈ استعمال کرنے کی وجہ سے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو بہت زیادہ انتظار کرنا پڑا۔

انھوں نے کہا کہ اگر سکیورٹی فورسز عام لوگوں کی موجودگی میں کارروائی کرے تو ’اس میں فرق کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ کون معصوم ہے اور کون دہشت گرد۔‘

وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اگر کسی آپریشن میں کوئی ’بے گناہ شخص مارا گیا تو پھر اسے حکومت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔‘

وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف شہروں اور شاہراہوں پر کارروائی کرے گی۔ ’یہ اشتہار حکومت کی جانب سے اس لیے دیا گیا ہے تاکہ عام لوگ ان سے دور رہیں۔۔۔ حکومت اور سکیورٹی فورسز کسی طرح بھی یہ نہیں چاہتے کہ عام لوگوں کا نقصان ہو۔‘

ایک سوال پر انھوں نے کہا کہ عسکریت پسندوں کے ’شاید چند ایک حامی ہوں‘ لیکن کالعدم تنظیموں کی ناکہ بندیوں یا شہروں پر حملوں کے موقع پر بعض لوگ ’خوف کی وجہ سے ان کے قریب ہوتے ہیں تاکہ وہ ان کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔‘

کوئٹہ، کراچی روڈ
BBC
نوابزادہ لشکری رئیسانی کی رائے ہے کہ ’اگر ریاست اپنے عوام کو آئینی و قانونی حقوق اور احترام دے تو پھر شاید حکومت کو ایسا اشتہار دینے کی ضرورت نہ پڑے‘

کیا لوگوں میں واقعی بلوچ عسکریت پسندوں کے لیے ہمدردی پائی جاتی ہے؟

نوابزادہ لشکری رئیسانی کا شمار بلوچستان کے ان سینیئر سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے۔ آئے دن لاشیں گرتی ہیں اور پھر خاموشی سے وہ کھاتا بند ہوجاتا ہے حالانکہ وہ لاشیں اسی سرزمین کے لوگوں کی ہیں۔‘

ان کی رائے ہے کہ چونکہ حکومت انصاف نہیں دے پا رہی اس لیے لوگ حکومت کے خلاف کھڑے ہونے والوں کو ’اپنا خیرخواہ اور دوست سمجھیں گے۔‘

’اگر ریاست اپنے عوام کو آئینی و قانونی حقوق اور احترام دے تو پھر شاید حکومت کو ایسا اشتہار دینے کی ضرورت نہ پڑے۔‘

جب بلوچستان کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے دانشور رفیع اللہ کاکڑ سے اس کی وجوہات کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ اشتہار بنیادی طور پر حکومت کی ’گھبراہٹ‘ کو ظاہر کرتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس گھبراہٹ اور ردعمل کا جواز بھی ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بلوچ انسرجنٹس نے بڑی تعداد میں حملے کیے ہیں۔‘

ان کی رائے میں یہ ایک خطرناک صورتحال ہے کہ ’انسرجنٹس کسی علاقے میں آ رہے ہوتے ہیں تو عام لوگ ان کے ساتھ مل رہے ہوتے ہیں اور سیلفیاں بنا رہے ہوتے ہیں۔‘

تاہم ان کو کہنا تھا کہ ’حکومت کی جانب سے اشتہار میں جس ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے، اس کا کوئی جواز نہیں۔ اس ردعمل کی بجائے ان وجوہات کو سمجھنا چاہیے کہ عسکریت پسندوں کے لیے عوام میں ہمدردی کیوں ہے؟ بات یہاں تک کیوں پہنچی؟‘

'عام لوگوں کو یہ دھمکی دینا کہ ریاست انھیں قانونی یا غیر قانونی طور پر نقصان پہنچا سکتی ہے، میرے خیال میں ایک غلط ردعمل ہے۔'

ان کی رائے ہے کہ عام لوگوں کو ’ڈرانے دھماکے کی بجائے سیاسی اور اقتصادی اسباب پر غور کرنا چاہیے۔‘

مگر پاکستان میں سکیورٹی امور کے ماہر اور پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں سکیورٹی فورسز کے لیے آپریشن ’مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی کالعدم تحریک طالبان پاکستان ایک دور میں شمالی علاقہ جات میں کرتی رہی ہے اور وہ عام لوگوں کو شیلڈ بناتی رہی ہے۔‘

’جہاں تک کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی بات ہے تو اس کا بلوچستان میں امیج لوگوں کے لیے مختلف ہے اور وہ دہشت گردی والا نہیں ہے۔ ایک وجہ تو یہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ اس کے علاوہ لوگوں کو تجسس بھی ہوتا ہے کہ یہ کون لوگ ہیں جو پہاڑوں پر گئے ہوئے ہیں۔ ’اس تجسس کی وجہ سے بھی لوگ جا کر ان کے ساتھ سیلفیاں بنا رہے ہوتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow