حالیہ مقدمات میں فیصلوں کے بعد بہت سے لوگ پاکستان میں یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ کیا شاہ محمود قریشی باقی مقدمات میں بھی بری ہو سکتے ہیں اوراگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو کیا وہ پی ٹی آئی کے اندر یا باہر کوئی سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں؟ ساتھ ہی سوال یہ بھی ہے کہ حالیہ فیصلوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو ہونے والی سزاؤں سے کیا سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت کی سیاست پر کوئی فرق پڑے گا؟

پاکستان میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے چند مرکزی رہنماؤں کو 9 مئی 2023 کو سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے دوران فوجی اور سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانے کے الزامات میں گرفتار کیا گیا۔
لگ بھگ ہر ایک گرفتار رہنما کے خلاف ایک سے زیادہ مقدمات درج کیے گئے۔ ان میں سے زیادہ تر مقدمات انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں زیر بحث ہیں۔ ان ہی میں سے کم از کم دو عدالتوں نے حال ہی میں فیصلے سنا دیے ہیں۔
سرگودھا اور لاہور کی عدالتوں کے ان فیصلوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد احمد خان بچھر، قومی اسمبلی کے ممبر احمد چٹھا اور لاہور میں سابق وزیر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، سینیٹر اعجاز چوہدری اور سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ سمیت دیگر رہنماؤں کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔
لاہور اور سرگودھا کی ان دونوں عدالتوں کے فیصلوں میں ایک قدرے مشترک ہے۔ دونوں عدالتوں نے مزمان کو دس دس برس کی سزائیں سنائی ہیں۔
دوسری جانب لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے اسی فیصلے میں پی ٹی آئی کے نائب صدر شاہ محمود قریشی کو بری کر دیا ہے۔ انھوں نے موقف اپنایا تھا کہ اس روز وہ لاہور میں موجود ہی نہیں تھے۔
قانونی ماہرین کے مطابق اگر ایک عدالت نے شاہ محمود قریشی کے اس موقف کو مانتے ہوئے انھیں بری کیا ہے تو انھیں ان باقی عدالتوں میں بھی قانونی فائدہ پہنچے گا جہاں ان پر اسی نوعیت کے الزامات پر مقدمات چل رہے ہیں۔
تو کیا شاہ محمود قریشی باقی مقدمات میں بھی بری ہو سکتے ہیں؟ ایسا ہونے کی صورت میں وہ جیل سے رہا ہو سکتے ہیں۔ اور اگر واقعی ایسا ہوتا ہے تو کیا وہ پی ٹی آئی کے اندر یا باہر کوئی سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں؟
ان حالیہ مقدمات میں فیصلوں کے بعد بہت سے لوگ پاکستان میں یہ سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں۔ ساتھ ہی سوال یہ بھی ہے کہ حالیہ فیٍصلوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو ہونے والی سزاؤں سے کیا سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت کی سیاست پر کوئی فرق پڑے گا؟
’اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو سبق سکھانا چاہتی ہے‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے صحافی اور تجزیہ کار ماجد نظامی نے کہا کہ ’پاکستان کے عدالتی نظام کی سست روی کا خمیازہ جہاں اب تک عوام بھگت رہے تھے، اب اسٹیبلشمنٹ کو بھی اس کا سامنا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ دو برس سے زیادہ عرصے سے پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ یہ چاہ رہی تھی کہ عدالتوں کی طرف سے 9 مئی سے متعلق مقدمات کے فیصلے جلدی کیے جائیں تاہم وہ مسلسل التوا کا شکار رہے۔‘
’اب جا کر ان مقدمات میں فیصلوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے اور صرف دو مقدمات میں فیصلے آئے ہیں، بہت سے ابھی بھی آنا باقی ہیں۔‘
ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ’جب تک مزید فیصلے نہیں آ جاتے اور پورا منظر نامہ واضح نہیں ہو جاتا، اس وقت تک اس سوال کا جواب تلاش کرنا قبل از وقت ہو گاکہ پی ٹی آئی کے سیاسی مستقبل پر ان فیصلوں کا کیا اثر پڑ سکتا ہے۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی کو سبق سکھانا چاہتی ہے تاکہ یہ مثال قائم نہ ہو سکے کہ آئندہ اگر کسی کو بھی اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف ہو تو وہ اٹھ کر توڑ پھوڑ اور مظاہرے شروع کر دے۔‘
’پی ٹی آئی کے احتجاج کے ایجنڈے کو نقصان پہنچ سکتا ہے‘
صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی کے خیال میں اس وقت اب مقدمات کے فیصلے آنے کا ایک مقصد یہ بھی نظر آتا ہے کہ پی ٹی آئی میں جہاں پہلے ہی سے اختلاف موجود ہیں، انھیں مزید گہرا کیا جائے ’تاکہ پی ٹی آئی کے اندر لوگ ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیں۔‘
ان کے خیال میں اس سے ہٹ کر اگر ویسے ان مقدمات کی ایف آئی آر کے مندرجات کا دیکھا جائے تو ’ان میں سے بہت سی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں۔‘ انھوں نے لاہور کے جناح ہاؤس کی ایف آئی آر کا حوالہ دیا۔
’اس میں یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ یاسمین راشد اور میاں محمود الرشید وغیرہ نے خود ہتھیار اٹھا کر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں سرکاری اہلکار زخمی ہوئے۔ ایسے جواز کو ٹرائل عدالت سے تو منوایا جا سکتا ہے لیکن ان کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا عین ممکن ہے۔‘
تاہم صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ حالیہ عدالتی فیصلوٍں کی ٹائمنگ بہت اہم ہے جو پی ٹی آئی کے مستبقل کے ایجنڈے پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے کچھ عرصہ قبل ٹرائل عدالتوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ چار ماہ کے اندر اندر 9 مئی سے متعلق مقدمات کے فیصلے سنائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مدت 8 اگست کو ختم ہو رہی ہے۔
’ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ 8 اگست سے قبل 9 مئی کے دیگر کئی مقدمات کے فیصلے بھی آ جائیں گے اور ان کا براہ راست اثر پی ٹی آئی کے 5 اگست کے اس احتجاج کے ایجنڈے پر ہو سکتا ہے جس کی کال انھوں نے دے رکھی ہے۔‘
ان کے خیال میں عدالتوں نے پی ٹی آئی کے جن رہنماؤں کو سزائیں سنائی ہیں وہ دس دس برس تک سنائی ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ ان فیصلوں کے خلاف اپیلیں منظور ہونے میں بھی وقت لگے گا جو کئی ماہ تک ہو سکتا ہے۔
تجزیہ نگار سلمان غنی بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ 9 مئی کے مقدمات میں آنے والے فیصلوں کے نتیجے میں کچھ رہنماؤں کو سزاؤں اور کچھ کی رہائی سے پی ٹی آئی کے اندر پہلے سے موجود اختلافات بڑھ سکتے ہیں۔
کیا شاہ محمود قریشی رہا ہو سکتے ہیں؟
لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے جہاں پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں کو دس دس برس قید کی سزائیں سنائی ہیں وہیں جماعت کے نائب صدر شاہ محمود قریشی سمیت چار افراد کو بری کر دیا ہے۔
تاہم خیال رہے کہ اس ایک فیصلے میں بری ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی جیل سے رہا نہیں ہو جائیں گے کیونکہ وہ دیگر کئی مقدمات میں مطلوب ہیں اور ان کے خلاف مقدمات چل رہے ہیں۔
قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ شاہ محمود قریشی کو اس حالیہ فیٍصلے کا بحرحال فائدہ ہو سکتا ہے۔ اگر ایک عدالت نے ان کے مؤقف کو درست تسلیم کر لیا ہے تو ان کے وکیل باقی عدالتوں کے سامنے یہی موقف اپنا کر ان کے لیے ریلیف لے سکتے ہیں۔
تو کیا یہ ایک اشارہ نشاندہی کرتا ہے کہ شاہ محمود قریشی جیل سے رہا ہو سکتے ہیں؟ صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی اور سلمان غنی دونوں کا ماننا یہ ہے کہ اس بات کے امکانات کم نظر آتے ہیں۔
ماجد نظامی کے خیال میں پاکستان کے عدالتی نظام میں جو خامیاں ہیں ان کا فائدہ شاہ محمود قریشی کو ضرور ہو سکتا ہے تاہم ’ایسے کوئی اشارے نظر نہیں آتے کہ ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی ڈیل ہو گئی ہو۔‘
تجزیہ نگار سلمان غنی کے خیال میں شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی کے اندر عمران خان کے متبادل کا کردار ادا نہیں کر سکتے ’اور اگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے کام نہیں آ سکتے تو اسٹیبلشمنٹ کی بھی کوئی مجبوری نہیں ہو گی کہ ان کو رہا کیا جائے۔‘
کیا شاہ محمود قریشی مستقبل قریب میں کوئی سیاسی کردار ادا کر سکتے ہیں؟

پاکستان میں سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین حالیہ عدالتی فیصلوں کے بعد یہ قیاس آرائیاں کرتے یا سوال پوچھتے نظر آ رہے ہیں کہ اگر شاہ محمود قریشی باقی مقدمات میں بھی بری ہونے کے بعد رہا ہو جاتے ہیں تو کیا وہ پی ٹی آئی کے اندر یا باہر سیاسی طور پر کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟
اس سوال کے جواب میں بھی تجزیہ نگار ماجد نظامی کا خیال ہے کہ شاہ محمود قریشی کے لیے کوئی ایسا کردار ادا کرنا مشکل ہو گا جس میں پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر نقصان ہوتا نظر آ رہا ہو۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے اندر کوئی نئی حکمرانی لانا یا کوئی نیا گروپ وغیرہ بنانا بہت مشکل ہو گا۔ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں یا پنجاب کے اندر جب بھی اس قسم کی کوشش کی گئی ہے اس کا نتیجہ ان کی سیاسی تباہی کی صورت میں نکلا ہے۔‘
ماجد نظامی کے خیال میں شاہ محمود قریشی عمران خان کی مرضی اور منشا کے بغیر پارٹی کے اندر بھی کوئی ایسا کردار ادا نہیں کر پائیں گے جس سے وہ پی ٹی آئی کو تقسیم کر پائیں یا اپنے اختیار میں کر پائیں۔
صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی بھی کہتے ہیں کہ ’ایسی کسی کوشش کو پی ٹی آئی کا ورکر یا ووٹر اور سپورٹر تسلیم نہیں کرے گا۔‘ ان کے خیال میں جب تک شاہ محمود قریشی پر عمران کن کا ہاتھ نہیں ہو گا ان کے لیے پی ٹی آئی کے اندر کوئی کردار ادا کرنا مشکل نظر آتا ہے۔
’تاریخ میں کبھی بھی مائنس ون کا فارمولا کامیاب نہیں ہوا۔ یہاں پی ٹی آئی میں بھی عمران خان کی ہی تمام ویلیو ہے۔‘
ماضی کے کچھ واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلمان غنی کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو وہ زیادہ تر ’مزاحمت کے سیاست دان نہیں رہے۔‘ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ’حال ہی میں ان کے بیٹے اور پی ٹی آئی لیڈر زین قریشی بارگین کر چکے ہیں اور وہ اس وقت ملک میں موجود بھی نہیں ہیں۔‘
ان کے خیال میں اس بات کے امکانات کم ہیں کہ شاہ محمود قریشی جیل سے باہر آ جائیں کیونکہ اگر وہ باہر آ جائیں تو بھی اس بات کے امکانات مزید کم ہیں کہ وہ سیاسی کردار ادا کر پائیں گے۔