وقاص اور شفیع اللہ اپنے بھائی سمیع اللہ کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے اٹلی اور قبرص سے پاکستان کے ضلع نوشہرہ پہنچے تھے لیکن انھیں علم نہیں تھا کہ وہ دونوں اپنے پاکستان میں مقیم بھائی عباس کے ہمراہ اپنے ہی رشتہ داروں کی فائرنگ سے مارے جائیں گے۔
وقاص اور شفیع اللہ اپنے بھائی سمیع اللہ کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے بیرون ملک سے پاکستان کے ضلع نوشہرہ پہنچے تھے لیکن انھیں علم نہیں تھا کہ وہ دونوں اپنے پاکستان میں مقیم بھائی عباس کے ساتھ اپنے ہی رشتہ داروں کی فائرنگ سے مارے جائیں گے۔
وقاص اپنے بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے اٹلی اور شفیع اللہ قبرص سے آئے تھے اور دونوں نے ہی یکم جون کو پورے خاندان کے ہمراہ اس خوشی کی تقریب میں شرکت کی تھی۔
شادی کے بعد بیرونِ ملک سے آئے ہوئے دونوں بھائیوں نے اپنے دادا کے گھر ایک پکنک کا اہتمام کیا جہاں چچا کے خاندان کو بھی مدعو کیا گیا۔
یہی پکنک کا دن ان کی زندگی کا آخری دن ثابت ہوا جب وہ اپنے ہی چچا اور ان کے بچوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔
یہ واقعہ ضلع نوشہرہ کے تھانے اضا خیل کی حدود میں پلوسی بالا کے علاقے میں میں پیش آیا جو ایک انتہائی دور دراز پسماندہ علاقہ ہے۔
پولیس نے تھانے میں درج ایف آئی آر میں نامزد ملزمان میں سے تین کو گرفتار کر لیا ہے جبکہ ایک اب تک روپوش ہے۔
سمیع اللہ خود بھی بھائی وقاص کے ساتھ اٹلی میں مقیم تھے اور دونوں ہی شادی کے لیے نوشہرہ پہنچے تھے جبکہ شفیع اللہ قبرص میں تعلیم حاصل کر رہے تھے۔
وقاص کو 25 جولائی اور سمیع اللہ کو 27 جولائی کو واپس اٹلی جانا تھا۔
ان چاروں بھائیوں میں سے صرف وقاص اپنی والدہ کے ساتھ پاکستان میں مقیم تھے لیکن اب وہ بھی دنیا میں نہیں رہے ہیں۔
اہلخانہ کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسا لمحہ نہیں گزرتا جب ان کی ماں اپنے تینوں بیٹوں کو یاد کر کے نہ روتی ہوں۔
پولیس کے مطابق یہ تینوں بھائی 18 جولائی کو فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے۔
’نجانے کیوں اپنوں نے ہمارا گھر اجاڑ دیا‘
سمیع اللہ اس واقعے کے چشم دید گواہ ہیں اور ان ہی کی مدعیت میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میری شادیکے لیے خاندان کے سب لوگ جمع ہوئے تھے۔ ہم نے پاکستان میں اپنی بچپن کی یادیں تازہ کیں، وقاص، شفیع اللہ اور عباس کے ساتھ بہت گپ شپ لگی۔‘
سمیع اللہ نے بتایا کہ ’جوں جوں جانے کا وقت قریب آ رہا تھا جدائی کا احساس بڑھتا جا رہا تھا، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا کہ دادا کے گھر اپنے آبائی گاؤں پلوسی بالا جاتے ہیں وہاں سب مل کر کھانا کھائیں گے اور گپ شپ کریں گے۔‘
’ہم نے سب کو دعوت دی، اپنے چچا اور ان کے بیٹوں کو بھی بلایا، شہر سے گوشت اور دیگر سارا سامان لیا اور گاؤں پہنچ گئے۔‘
سمیع اللہ کہتے ہیں کہ وہ کھانا پکانے میں مصروف تھے اور انھیں محسوس ہوا کہ اُدھار کے معاملے پر ان کے دادا اور چچا کے درمیان تلخ کلامی شروع ہو گئی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے چچا نے اپنے والد سے چار لاکھ روپے ادھار لیے تھے جس میں سے انھوں نے صرف 50 ہزار واپس کیے تھے۔ یہی بقایا ساڑھے تین لاکھ روپے خونی تنازع کا سبب بنے۔
’چچا اور دادا کے درمیان اس مسئلے پر جب شدت آئی تو میں اور وقاص آئے اور چچا سے کہا کہ بس چھوڑیں اس معاملے کو وہ آپ کے والد ہیں، ایسےسخت الفاظ نہ کہیں۔‘
’اس بات پر چچا اور ان کے بیٹے ہم پر غصہ ہوئے اور یکدم پہلے سے لوڈڈ پستول سے فائرنگ شروع کر دی جس سے وقاص، عباس اور شفیع اللہ کو گولیاں لگیں لیکن میں معجزانہ طور پر بچ گیا۔‘
وہ دکھی انداز میں کہتے ہیں کہ ’نجانے کیوں اپنوں نے ہی ہمارا گھر اجاڑ دیا؟‘
’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے اور ہمیں یہ بھی معلوم نہیں کہ چچا اور ان کے بیٹوں کو ہم سے کیا مخاصمت تھی جو وہ خاندانی بیٹھک میں گولیوں سے بھرا پستول لے آئے۔‘
پولیس کا کیا کہنا ہے؟
اضا خیل تھانے میں تعینات تفتیشی افسر نیک زمان نے بی بی سی کو بتایا کہ بظاہر تو یہ حسد اور کینے کا معاملہ ہے کیونکہ تنازع کی کوئی بڑی وجہ نہیں تھی۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ایف آئی آر درج کرنے کے بعد تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا تھا اور ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے بھی مارے جا رہے تھے۔
نیک زمان کہتے ہیں کہ تفتیشی ٹیم نے جدید طریقہِ تفتیش کو اپناتے ہوئے معلومات حاصل کیں کہ نامزد ملزمان کسی بھی وقت علاقے سے نکلنے کی کوشش کرینگے، اس لیے پولیس پارٹیوں کو الرٹ کیا گیا تھا اور تین ملزمان کو فرار ہوتے وقت گرفتار کر کے اسلحہ بھی برآمد کر لیا جبکہ ایک ملزم کی تلاش ابھی جاری ہے۔
سمیع اللہ نے بتایا کہ ان کے والد فوت ہو چکے ہیں جبکہ والدہ سانس کی بیماری میں مبتلا ہیں اور اس واقعہ کے بعد ان کی حالت بہتر نہیں۔
سمیع اللہ مزید کہتے ہیں کہ وقاص 12، 13 برس سے اٹلی میں مقیم تھے اور ان کے دو بچے بھی ہیں۔
ان بھائیوں کے ایک رشتہ دار پاکستان میں سرکاری ملازم ہیں اور ان کا نام بھی سمیع ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چاروں بھائی بہت خوش اخلاق تھے اور انھیں جانوروں سے بے پناہ محبت تھی۔‘