گورنر اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے پریس کانفرنس کے دوران شرح سود اگلے 2 ماہ کے لیے 11 فیصد پر برقرار رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام معاشی اشاریئے دیکھ کر شرح سود 11 فیصد پر رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ توانائی کی قیمتوں میں آئندہ بھی اضافے کا امکان ہے، موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح 5 سے 7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ مئی اور جون میں مہنگائی کی شرح کچھ بڑھی ہے اور اس وقت مہنگائی کی شرح 7.2 ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ مالی سال میں تمام ادائیگیاں وقت پر کی گئیں، گزشتہ مالی سال ترسیلات زر 30 ارب ڈالر تھیں۔ گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں تقریباً 5 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرس میں تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ مہنگائی میں کمی کے منظرنامہ میں توانائی کی قیمتوں، خاص طور پر گیس کے نرخوں میں توقع سے زیادہ رد وبدل سے بگاڑ آگیا ہے جب کہ معاشی سرگرمی میں اضافہ اور عالمی تجارت میں سست روی کے سبب مالی سال 26ء میں تجارتی خسارہ مزید بڑھے گا۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے کہا کہ تیل کی عالمی قیمتیں متغیر رہیں جبکہ دھاتوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اسی دوران، عالمی تجارت کے ٹیرف کے اثرات غیر یقینی رہے، جس کی وجہ سے مرکزی بینکوں نے محتاط زری پالیسی موقف برقرار رکھا۔
گورنر اسٹیٹ بینک نے مانیٹری پالیسی بیان میں کہا کہ سیلاب سے متعلق خطرات سے قطع نظر مالی سال 26ء میں زرعی شعبے میں بھی بحالی کی توقع ہے۔ خاص طور پر حالیہ بارشوں کی وجہ سے پانی کی بہتر دستیابی کے نتیجے میں اہم فصلوں کےامکانات سابقہ توقعات کے مقابلے میں کچھ بہتر ہوئے ہیں۔ اجناس پیدا کرنے والے شعبوں کے بہتر امکانات خدمات کے شعبے پر بھی مثبت اثرات مرتب کریں گے۔ مالی حالات میں بہتری ، مثبت کاروباری احساسات اور بتدریج مضبوط ہوتے معاشی حالات کے بل بوتے پر حقیقی جی ڈی پی کی نمو اس سال بڑھ کر 3.25 تا 4.25 فیصد تک رہنے کی توقع ہے جبکہ قبل ازیں مالی سال 25ء میں اس کے 2.7 فیصد تک رہنے کا عبوری تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اسٹیٹ بینک زرمبادلہ ذخائر دسمبر 2025 ء کے آخر تک بڑھ کر 15.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔
گورنر اسٹیٹ بینک کے مطابق مذکورہ منظرنامے کو متعدد خطرات درپیش ہیں، جن میں اجناس کی عالمی قیمتوں اور تجارتی رجحانات کی غیر یقینی صورتِ حال، توانائی کے سرکاری نرخوں میں غیر متوقع ردوبدل اور وسیع پیمانے پر سیلاب کے امکانات شامل ہیں۔
گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کے مطابق اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے شرح سود 11 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔
صدر ایف پی سی سی آئی عاطف اکرام شیخ نے کہا ہے کہ پاکستان کے کاروباری، صنعتی اور تجارتی حلقے حکومتی مالیاتی پالیسی سے شدید مایوس ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ FPCCI نے تمام صنعتی و تجارتی شعبوں سے مشاورت کے بعد بدھ کو ہونے والی مانیٹری پالیسی کمیٹی کی میٹنگ میں ایک ساتھ 500 بیسز پوائنٹس کی کمی کا مطالبہ کیا تھا تاکہ پالیسی ریٹ کو عملی ومعاشی طور پرقابل قبول بنیادوں پر لایا جاسکے اور اسے اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (SIFC) اور وزیرِاعظم کے صنعتی ترقی، درآمدی متبادل اور برآمدی فروغ کے وژن کے مطابق بنایا جاسکے۔
یونائٹڈ بزنس گروپ (UBG) کے سرپرست اعلیٰ ایس ایم تنویر نے کہا کہ جولائی تا اگست 2025 کے دوران افراط زر کی شرح 3 سے 4 فیصد رہنے کی توقع ہے جس کی بنیاد پر انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ پالیسی ریٹ کو فوری طور پر 6 فیصد تک لایا جانا چاہیے۔
ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر و ریجنل چیئرمین سندھ عبدالمہیمن خان نے تجویز دی ہے کہ شرح سود کو فوری طور پر سنگل ڈیجٹ کیا جائے تاکہ پاکستانی برآمد کنندگان خطے اور عالمی منڈیوں میں مسابقت کے قابل ہو سکیں۔
دریں اثناء کراچی چیمبر آف کامرس اور فیڈریشن اینڈ چیمبر آف کامرس کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے شرح سود پانچ ،چھ فیصد کمی کا مطالبہ کیا جارہا تھا لیکن مرکزی بینک کا اس کے برعکس فیصلہ سامنے آنے پر تاجروں کی جانب سے مایوسی کا اظہار کیا گیا ہے۔