کیا پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اور مرکزی رہنماؤں کو ملنے والی سزاؤں اور نااہلیوں سے تحریک انصاف پارلیمان میں مزید کمزور ہو سکتی ہے؟

پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کے مطابق عدالت کی طرف سے سنائے گئے فیصلوں کے نتیجے میں پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے 14 اراکین اسمبلی کو سزائیں سنائی گئی ہیں اور نااہل قرار دیا گیا ہے، جن میں سے چھ اراکین اسمبلی، ایک رکن صوبائی اسمبلی جبکہ ایک سینیٹر شامل ہیں۔ جمعرات کو چھ جبکہ اس سے قبل آٹھ اراکین کو سزا سنائی گئی۔
تصویر
Getty Images
تحریک انصاف کے مطابق نو مئی کے مقدمات میں 14 اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو سزائیں سنائی گئی ہیں

سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی کے لیے ملک گیر احتجاج کی تاریخ (پانچ اگست) جیسے جیسے قریب آ رہی ہے، بظاہر ویسے ویسے پاکستان تحریک انصاف کو دھچکے ملنے کا عمل تیز تر ہوتا نظر آ رہا ہے۔ جمعرات کو فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت نے نو مئی کے واقعات سے متعلق ایک کیس کا فیصلہ سُناتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں سمیت 108 کارکنوں کو قید کی سزائیں سنا دی ہیں۔

عدالت کی طرف سے سنائے گئے فیصلے میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی لیڈر زرتاج گل اور سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر شبلی فراز کو دس، دس سال قید کی سزا سنائی گئی ہیں جبکہ سُنی اتحاد کونسل کے چیئرمین حامد رضا کو بھی 10 سال قید کی سزا سنائی گئی ہیں۔

یہ فیصلہ نو مئی 2023 کو فیصل آباد میں واقع ایک حساس ادارے کے دفتر پر حملے کے کیس میں سنایا گیا ہے جس میں 185 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا جن میں سے 108 ملزمان کو مجرم قرار دیتے ہوئے سزائیں دی گئیں۔

اس سے قبل 22 جولائی کو سرگودھا اور لاہور کی عدالتوں سے سامنے آنے والے فیصلوں میں پی ٹی آئی کے پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کے قائد احمد خان بچھر، رُکن قومی اسمبلی احمد چٹھہ اور سابق وزرا یاسمین راشد، میاں محمود الرشید، سینیٹر اعجاز چوہدری اور سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ سمیت دیگر مرکزی رہنماؤں کو سزائیں سُنائی گئی تھیں۔

ان کے علاوہ پی ٹی آئی کے دیگر رہنماؤں خالد قیوم، ریاض حسین، علی حسن اور افضال عظیم پاہٹ بھی دس، دس برس قید کی سزا پانے والوں میں شامل ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی کے میڈیا سیل کے مطابق حالیہ دنوں میں عدالتوں سے 14 اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کو سزائیں سنائی گئی ہیں جس کے بعد انھیں الیکشن کمیشن کی جانب سے یا تو نااہل قرار دیا چکا ہے یا یہ پراسیس شروع کر دیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے مطابق جمعرات کو چھ جبکہ اس سے قبل آٹھ اراکین کو سزائیں سنائی گئی ہیں۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کو حکم دیا تھا کہ وہ 9 مئی کے مقدمات میں عدالتی کارروائی مکمل کرتے ہوئے ان پر فیصلہ سنائیں۔ اس ضمن میں سپریم کورٹ کی طرف سے دی جانے والی ڈیڈ لائن اگلے ماہ ختم ہو رہی ہے۔

اسی طرح جمعرات کو ہی ایک فیصلے کے ذریعے اسلام آباد کی انسداد دِہشت گردی کی عدالت نے 26 نومبر احتجاج کیس میں سابق صدر عارف علوی، وزیر اعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور اور سلمان اکرم راجہ سمیت پی ٹی آئی کے 50 رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے ہیں۔

نو مئی کے واقعات
Getty Images
نو مئی سے متعلق ایک مقدمے میں قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، قومی اسمبلی میں پاکستان تحریک انصاف کی پارلیمانی لیڈر زرتاج گل اور سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر شبلی فراز کو دس، دس سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں

حالیہ دنوں میں سزائیں پانے والوں میں اشرف سوہنا، رائے حسن نواز، رائے مرتضیٰ، چوہدری اقبال اعجاز،محمد احمد چٹھہ، چوہدری آصف علی، شکیل احمد خان نیازی، کنول شوذب، فرخ آغا، فرخندہ کوکب، انشااظہر، سردار عظیم اللہ خان، مہرمحمد جاوید، محمد انصراقبال، رانا آفتاب، شعبان کبیر اور جنید افضل ساہی بھی شامل ہیں۔

عدالتوں کی جانب سے جن پی ٹی آئی رہنماؤں کو بری کیا گیا ہے اُن میں سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی کے بیٹے ایم این اے زین قریشی، خیال کاسترو اور عبداللہ دمڑ شامل ہیں جبکہ ماضی قریب میں انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو بھی نو مئی کے مقدمات سے بری کر دیا تھا۔

’عدلیہ پر سوالیہ نشان‘

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے خلاف سارے فیصلے سیاسی بنیادوں پر کیے گئے ہیں جن کو چیلنج کیا جائے گا کیونکہ یہ فیصلے ’عدلیہ پر سوالیہ نشان‘ کھڑا کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے فیصلے میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈرز کو سزا ہوئی۔ یہ جو فیصلے آ رہے ہیں اس سے جمہوریت تباہ ہو جائے گی۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی عمران خان کے سامنے یہ فیصلے رکھے گی اور پھر ایوان میں رہنا ہے یا اس کا بائیکاٹ کرنا ہے یا کیا تحریک چلانی ہے۔ اس کا فیصلہ کریں گے۔‘

بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ’جن لوگوں کو آپ نے سزائیں دیں یہ وہ لوگ ہیں جو سیاست میں تشدد پر یقین نہیں رکھتے۔‘

انھوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان نے مفاہمت کی بہت کوشش کی مگر ہم پر گولی چلی۔ ہم چاہتے ہیں کہ سسٹم چلے، ہمارا لیڈر باہر ہو لیکن کوئی تو ہے جو اس سسٹم کو لپیٹنا چاہتا ہے۔‘

’پارلیمان کا توازن بگڑتا جا رہا ہے‘

اس صورتحال پر تجزیہ کرتے ہوئے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے بی بی سی کو بتایا کہ عدالتی فیصلوں کے ذریعے بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو سزاؤں اور نا اہلی کا سامنا ہے۔ ان کی رائےمیں ’یہ بظاہر بہت بڑا سیٹ بیک ہے۔‘

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’یہ پی ٹی آئی کے لیے بہت بڑا دھچکہ ہے اور اب پی ٹی آئی کے لیے آپشن محدود ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ان فیصلوں کے بعد اب اسمبلیوں کے اندر پی ٹی آئی کمزور ہوتی جا رہی ہے جبکہ باہر سڑکوں پر یہ پارٹی کوئی تحریک نہیں چلا پا رہی ہے اور اپنی سیاسی طاقت نہیں دکھا پا رہی ہے۔‘

مظہر عباس کے مطابق ایسا ہونے کی وجہ ریاست کا جبر بھی ہے اور اس کا مقصد حکومت کو پارلیمان میں اپوزیشن سے بچا کر مزید مضبوط بنانا ہے۔ اُن کے مطابق ’پی ٹی آئی اگر حکومت کے لیے سڑکوں پر بھی چینلج نہ بن سکی تو پھر یہ مزید کمزور اور حکومت مضبوط ہوتی جائے گی۔‘

تجزیہ کار مسرت قدیم کا کہنا ہے کہ ’یہ پی ٹی آئی سے زیادہ جمہوریت کو سزا دی جا رہی ہے اور اس عمل کے ذریعے ٹوٹی پھوٹی جمہوریت ڈی ریل ہو جائے گی۔ جہاں اپوزیشن نہیں گی تو وہاں کیا سیاست ہو گی اور کیا جمہوریت ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ متنازع فیصلوں کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا توازن بگڑتا جا رہا ہے اور ملک اس وقت ایک پارٹی نظام کی طرف بڑھ رہا ہے جس کا بظاہر مقصد مرضی کی قانون سازی کرنا اور عوامی امنگوں کی پرواہ کیے بغیر نئے ضوابط متعارف کرانا ہے۔ ان کی رائے میں عوامی نمائندوں کو اس طرح اسمبلیوں سے باہر نکالنے کا عمل کسی طور جمہوری اور آئینی نہیں ہے۔

مظہر عباس کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں پتا چل جائے گا کہ پی ٹی آئی کس حد تحریک چلانے میں کامیاب ہوئی ہے اور حکومت کو کس حد تک دباؤ میں لایا گیا ہے، اس سب کا انحصار اب ملک میں پی ٹی آئی کی تحریک پر ہے۔

ان کے مطابق تمام تر فیصلوں اور اقدامات کے باوجود آج بھی پی ٹی آئی مقبول عوامی جماعت ہے۔

مسرت قدیم کا کہنا ہے کہ ابھی تک پی ٹی آئی نے دو برس تک اپنے رہنما عمران خان کے بغیر بھی اپنا وجود برقرار رکھا ہے تاہم اس جماعت کو عدالتیں فیصلوں کے صدمے سے باہر نکلنے میں وقت لگ سکتا ہے۔

مسرت قدیم نے دعویٰ کیا کہ ملک کی سیاست پر اگر نظر دوڑائی جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ شاہ محمود قریشی، ان کے بیٹے زین قریشی اور دیگر پی ٹی آئی رہنماؤں کی بریت یہ ظاہر کرتی ہے کہ پس پردہ کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی ہیں اور کچھ لے اور دے ہوا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ جب اتنی بڑی تعداد میں ارکان اسمبلی کو نااہل قرار دیا جائے گا تو اس کا ردعمل آئے گا۔

مظہر عباس کا کہنا ہے کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ آئندہ آنے والے دنوں میں تحریک انصاف پارلیمانی لحاظ سے مزید کمزرو ہو گی اور پھر اس کی پارلیمانی کمزوری کے ذریعے حکومت اپنے اہداف کی طرف بڑھے گی۔

دوسری جانب حکومتی وزرا نے حالیہ عدالتی فیصلوں کا خیر مقدم کیا ہے۔ وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے فیصل آباد کی عدالت سے سامنے آنے والے عدالتی فیصلے کو ’ملک و قوم کے لیے خوش آئند‘ قرار دیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’یہ فیصلہ ریاستی اداروں کے خلاف منفی سوچ رکھنے والوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ ایسی حرکتیں اب برداشت نہیں کی جائیں گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow