عمران خان کی قید کے دو سال اور پارٹی قیادت سے ’مایوس لیکن پرامید‘ کارکن: ’ریاست آج بھی عمران خان کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے‘

توشہ خانہ کیس میں عدالت سے سزا پانے کے بعد بانی پاکستان تحریکِ انصاف اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو پانچ اگست 2023 کو گرفتار کر لیا گیا تھا اور آج اُن کی قید کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے پاکستان تحریکِ انصاف آج ’ملک گیر احتجاج‘ کر رہی ہے۔ لیکن تحریک انصاف کو کون چلا رہا ہے؟ اور عمران خان کی غیر موجودگی میں پارٹی کے کارکن کیا سوچ رہے ہیں؟

توشہ خانہ کیس میں عدالت سے تین سال کی سزا پانے کے بعد بانی پاکستان تحریکِ انصاف اور سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو پانچ اگست 2023 کو لاہور میں اُن کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا گیا تھا اور آج اُن کی قید کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔

اس دن کی مناسبت سے پاکستان تحریکِ انصاف آج ’ملک گیر احتجاج‘ کر رہی ہے۔ اس احتجاج کا اعلان گذشتہ ماہ عمران خان نے ایکس اکاؤنٹ کے ذریعے کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ عمران خان کی سوشل میڈیا ٹیم اُن کے اکاؤنٹس سے پیغامات پوسٹ کرتی ہے۔

اس پوسٹ میں کہا گیا تھا کہ ’پانچ اگست کو میری ناحق قید کو پورے دو برس مکمل ہو جائیں گے، اُس روز ہماری ملک گیر احتجاجی تحریک کا نقطہ عروج ہو گا۔‘

آج ہونے والا یہ احتجاج کس حد تک کامیاب رہے گا، یہ تو وقت آنے پر ہی پتا چلے گا، مگر اس سے قبل چند نکات ایسے ہیں جن کا احاطہ ضروری ہے۔

عمران خان
Getty Images

عمران خان کے جیل میں دو سال: پی ٹی آئی کے دیرینہ کارکنکیا سوچ رہے ہیں؟

اس رپورٹ کے لیے بی بی سی نے مختلف شہروں میں پی ٹی آئی کے بعض سرگرم کارکنان سے بات چیت کی ہے۔

پنجاب کی تحصیل عارف والا سے تعلق رکھنے والے پارٹی کارکن شیخ طلحہ طارق کہتے ہیں کہ اُن کے خیال میں فی الوقت جس انداز میں پارٹی کے اُمور چلائے جا رہے ہیں، شاید وہ ایسے نہیں جیسا کہ عمران خان چاہتے ہیں۔

طلحہ پارٹی کی موجودہ قیادت سے ’مایوس‘ ہیں مگر وہ پُرامید بھی ہیں آنے والے دنوں میں پارٹی اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت دوبارہ حاصل کر لے گی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے گذشتہ دِنوں بورے والا روڈ سے ساہیوال روڈ تک ریلی نکالی جس میں صرف 100 کے قریب ورکرز موجود تھے۔ یہ کارکنوں کے لیے مایوسی کا دور ہے مگر اس کے باوجود عمران خان اب بھی مقبول تو ہیں۔‘

ادریس چیمہ کا تعلق سیالکوٹ کی تحصیل سمبڑیال سے ہے۔ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت اور اس کی پالیسیوں کے حوالے سے وہ خدشات کا شکار ہیں کیونکہ، اُن کے مطابق پارٹی کی موجودہ سیاسی قیادت، ’اتنی سیاسی نہیں جتنا اسے ہونا چاہیے۔‘

مگر ادریس کا یہ بھی ماننا ہے کہ ’پارٹی قیادت کی سمت جو بھی ہو، بالآخر ہو گا وہی جیسا عمران خان چاہیں گے۔‘

بہت سے پی ٹی آئی سپورٹرز کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابتدا میں انھیں امید تھی کہ ان کے لیڈر جلد ہی جیل سے باہر آ جائیں گے مگر اُن کے مطابق ’اب عمران خان کی جتنی طویل اسیری ہوتی جا رہی ہے، وہ لوگوں کو خدشات اور مایوسی کا شکار کر رہی ہے۔‘

پی ٹی آئی کی مقبولیت کے باعث پارٹی میں شامل ہونے والے کیا آج بھی اپنے فیصلے پر قائم ہیں؟

پی ٹی آئی کی مقبولیت کے دنوں میں کئی اہم شخصیات اس پارٹی میں شامل ہوئی تھیں۔ مگر نو مئی کے واقعات کے بعد جہاں بعض دیرینہ رہنما پارٹی کا ساتھ چھوڑ گئے، وہیں ایسے رہنماؤں نے بھی پارٹی سے علیحدگی اختیار کی جو سنہ 2018 کے عام انتخابات سے قبل اس پارٹی کا حصہ بنے تھے۔

ہم نے بہت سے ایسے رہنماؤں سے رابطہ کیا جو 2018 کے الیکشن سے قبل تحریک انصاف میں شامل ہوئے یا انھوں نے آزاد حیثیت میں پی ٹی آئی کی تائید حاصل کی۔پنجاب میں موجود یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ اُن کے حلقوں میں آج بھی ’جیت کا نشان عمران خان اور اُن کی پارٹی کا ٹکٹ‘ ہی ہے۔

اُسامہ اصغر علی جنوبی پنجاب کے شہر لیہ سے صوبائی اسمبلی کے حلقے پی پی 282 سے پی ٹی آئی کی حمایت سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ انھوں نے گذشتہ عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل پی ٹی آئی میں اُس وقت شمولیت اختیار کی تھی جب عمران خان جیل میں تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم جس انداز سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے، آج بھی اُسی انداز سے پی ٹی آئی کا حصہ ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ووٹرز عمران خان کی رہائی کے لیے بے چین ہیں۔ جب اُن کو لگتا ہے کہ مستقبل قریب میں ایسا ہونے کا امکان نہیں تو وہ مایوس ضرور ہوتے ہیں مگر ایسے وقت میں بھی وہ وفاداری تبدیل کرنے کا نہیں سوچتے۔‘

اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما نعیم حیدر پنجوتھہ نے دعویٰ کیا کہ اگرچہ تحریک انصاف پر چھائے مشکل حالات کے باعث بہت سے لوگوں نے اپنی راہیں جدا کیں مگر ان مشکل حالات کے باوجود حلقوں میں انتخابی سیاست کرنے والے بعض اہم رہنما اُن کی پارٹی میں شامل ہونے کا سوچ رہے ہیں اور مرکزی قیادت سے رابطے میں ہیں۔

عمران خان
Getty Images

انتخابی سیاست: پی ٹی آئی کہاں کھڑی ہے؟

عمران خان کے جیل میں ہونے کے باوجود گذشتہ عام انتخابات میں اُن کی جماعت نے کئی حلقوں پر بڑے سیٹ اپ کیے تھے۔

پنجاب کی سطح پر بعض حلقوں میں یہ دیکھا گیا تھا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے الیکٹیبلز، اپنے حلقوں میں پی ٹی آئی کے اُمیدوارں ںے شکست کھا بیٹھے تھے یا انھیں انتہائی سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مگر سوال یہ اہم ہے کہ کیا آج بھی ووٹرز کا یہی رجحان برقرار ہے؟

اس ضمن میں منڈی بہاؤالدین کے حلقہ این اے 68 سے پی ٹی آئی اُمیدوار سے شکست کھانے والے ن لیگ کے ٹکٹ ہولڈر مشاہد رضا کہتےہیں کہ جس طرز پر گذشتہ دو برسوں کی پی ٹی آئی کی سیاست چل رہی ہے اس کے باعث شہری اور دیہی علاقوں میں ووٹرز کا رجحان اور رویہ اب بدلتا محسوس ہو رہا ہے۔

ن لیگ کے رہنما مشاہد رضا اس کی کئی وجوہات بتاتے ہیں۔ اُن کے مطابق موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز اپنی مقامی قیادت سے مایوسنظر آتے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جنھوں نے ووٹ دیے تھے اُن کے منتخب نمائندے ان کے کسی کام نہیں آ رہے ہیں اور انھیں کوئی ریلیف نہیں مل رہا ہے۔

’انتخابی حلقوں میں ووٹرز کی سوچ یہ ہے کہ صوبے میں حکومت ہونے کی وجہ سے ن لیگ کے ووٹرز کی شنوائی زیادہ ہوتی ہے۔‘

مشاہد رضا سمجھتے ہیں کہ اُن کے حلقے میں آج اُن کے مدِمقابل پی ٹی آئی کے اُمیدوار پہلے جیسے مضبوط حریف نہیں ہیں۔

کچھ ایسے ہی خیالات رحیم یارخان کے حلقہ این اے 172 سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار سے شکست کھانے والے مسلم لیگ ن کے امیدوار میاں امتیاز احمد کے بھی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ووٹرز اب اپنے خیالات بدل رہے ہیں۔‘

میاں امتیاز کے بقول مریم نواز کی بطور وزیراعلیٰ پنجاب کارکردگی اپنی پارٹی اور ووٹرز کے لیے ریلیف کا باعث بن رہی ہے اور اس کا اثر بھی نظر آ رہا ہے۔ تاہم اُن کے کہنا ہے کہ آئندہ الیکشن کے نزدیک حالات اور ووٹرز کی سوچ کیا ہو گی؟ یہ کہنا کچھ قبل از وقت ہے۔

گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق ایم این اے چودھری عابد رضا کے خیالات اس حوالے سے کچھ مختلف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کا ووٹ بینک پہلے بھی تھا اور آج بھی ہے۔‘ اُن کے نزدیک مشکل حالات کے باوجود ابھی تحریک انصاف کا زور ٹوٹا نہیں ہے۔

عمران خان
Getty Images

کیا ریاست کے نزدیک عمران خان آج بھی طاقتور ہیں؟

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نو مئی کے واقعات اور اس کے ردعمل میں تحریک انصاف کے زیر عتاب آنے کے باوجود عمران خان اور اُن کی جماعت آج بھی ایک بڑی سیاسی قوت ہیں۔

سیاسی تجزیہ کارضیغم خان کا کہنا ہے کہ ’اسٹیبلشمنٹ یہ سمجھتی ہے کہ عمران خان ناصرف نیشنل سکیورٹی رسک ہیں بلکہ ملک کی خارجہاور معاشی پالیسی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو مضبوط سیاسی قوت بھی سمجھتی ہے۔‘

صحافی اعزاز سید کے مطابق ’ریاست آج بھی عمران خان کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے۔‘

اعزاز کہتے ہیں کہ ’ریاست کے لیے پی ٹی آئی بطور پارٹی کوئی خطرہ نہیں لیکن عمران خان بطور سیاسی رہنما خطرہ ضرور ہیں۔‘

عمران خان
Getty Images

عمران خان کی غیرموجودگی، پی ٹی آئی کو کیسے متاثر کر رہی ہے؟

ضیغم خانکہتے ہیں کہ ’بظاہر پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹر عمران خان کے علاوہ پارٹی کے کسی دوسرے لیڈر پر اعتماد نہیں کرتے۔ ماضی میں بھی بڑا جلسہ وہی ہوتا تھا جس میں عمران خان خود موجود ہوتے تھے۔ ووٹرز اور سپورٹرز کی اسی سوچ کے باعث عمران خان کی جیل میں موجودگی پی ٹی آئی اور اس کی سیاست کو بہت زیادہ متاثر کر رہی ہے۔‘

صحافی اعزاز سید کے مطابق عمران خان کے جیل میں ہونے کے باعث تحریک انصاف کی سیاست بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ’تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کی اپنی اپنی مجبوریاں ہیں، جن کا وہ شکار ہیں۔‘

تاہم پی ٹی آئی رہنما نعیم حیدر پنجوتھہ کا خیال ہے کہ عمران خان کے جیل میں ہونے کی باوجود اُن کی یا تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عمران خان کو عوام نے گذشتہ الیکشن میں اُس وقت بھی ووٹ دیا تھا جب وہ جیل میں تھے اور آج بھی عوام اُن کے ساتھ ایسے ہی کھڑے ہیں اور وہ پسندیدہ ترین عوامی رہنما ہیں۔ ‘

اس کی وجہ بتاتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عام عوام تحریک انصاف کا حصہ عمران خان کی مقبولیت کو نہیں بلکہ ان کی جماعت کے نظریے کو دیکھ کر بنے تھے۔

ن لیگ کی حکومت اپنے بڑی حریف پارٹی کو کیسے دیکھ رہی ہے؟

مسلم لیگ ن کے رہنما سینیٹر عرفان صدیقی پی ٹی آئی کو کسی طور اب اپنی جماعت کے لیے بڑا چیلنج نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ اس بات سے متفق ہیں کہ پی ٹی آئی نے گذشتہ الیکشن میں ن لیگ کو سیاسی نقصان پہنچایا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ پی ٹی آئی نے 2024 کے عام انتخابات میں ن لیگ کو کوئی بڑا نقصان پہنچایا ہے۔ جونتائج آئے، وہ سب کے سامنے ہیں۔ (انتخابی دھاندلی سے متعلق) کئی کہانیاں بیان کی جاتی رہی ہیں لیکن کوئی مستند چیز یا ثبوت آج تک سامنے نہیں لایا جا سکا۔‘

سینیٹرعرفان صدیقی کے مطابق ’جہاں تک موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو عمران خان چند جرائم کے سلسلے میں سزائیں پا کر جیل کے اندر ہیں۔ ہمارے باقی سیاستدان، جو جیلوں میں رہے ہیں، کے مقدمات کو دیکھا جائے تو یہ (عمران خان کے خلاف) مقدمات بڑے ٹھوس ہیں اور بڑے واضح ہیں۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ آیا ن لیگ کے نزدیک عمران خان کی مقبولیت برقرار ہے یا نہیں؟

عرفان صدیقی نے کہا کہ ’عوامی سطح پر یقیناً مقبولیت کم ہوئی ہے اور موجودہ حالات میں تو وہ ایک سزا یافتہ قیدی ہیں۔ ہم انھیں بالکل سیاسی قوت نہیں سمجھتے اور جلد ہی شاید انھیں اور اُن کی پارٹی کو بھی شاید اس حقیقت کا ادراک ہو جائے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US