پاکستان میں مقامی طور پر گدھے کے گوشت کے استعمال پر پابندی ہے تاہم ملک کے اندر باقاعدہ کاٹ کر کے اس کے گوشت اور کھالوں کی برآمد سرکاری سطح پر جاری ہے۔
اس تضاد کا انکشاف فیک نیوز واچ ڈاگ نامی ایک تنظیم نے آج اپنی جاری ہونے والی تحقیقاتی رپورٹ میں کیا۔ وفاقی دارالحکومت میں قائم اس ادارے نے اپنی تحقیقات اس واقعے کے بعد پیدا ہونے والی بحث کے بعد شروع کی جس میں اسلام آباد میں گدھے کا ایک غیر قانونی سلاٹر ہاؤس پکڑا گیا تھا، اس چھاپے میں جو اسلام آباد فوڈ اتھارٹی نے مارا کئی چینی شہری بھی پکڑے گئے۔
تاہم یہ انکشاف بھی اہم ہے کہ وفاقی حکومت کی اجازت اور رہنمائی میں گوادر میں پہلے ہی ایک گدھے کا سلاٹر ہاؤس کام کر رہا ہے جہاں سالانہ دو لاکھ سے زائد گدھوں کا گوشت اور کھالیں چین کو برآمد کی جاتی ہیں۔ یہ ابہام بہرحال موجود ہے کہ اگر گوادر میں اس کام کی اجازت ہے تو پاکستان کے دیگر علاقوں میں کیوں نہیں حالانکہ گوادر کے مقابلے پنجاب اور سندھ میں گدھے کی افزائش زیادہ ہے۔
فیک نیوز واچ ڈاگ کی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ گرفتار چینی باشندوں یا فوڈ اتھارٹی سمیت کسی ادارے نے بھی مقامی سطح پر گوشت کی فراہمی کا اقرار نہیں کیا اور نہ ہی ایسا کوئی ثبوت تاحال ملا ہے پھر بھی سوشل میڈیا پر ایک بہت بڑی منفی مہم نے اسلام آباد کی متعدد مشہور فوڈ چینز اور ریسٹورنٹس کے کاروبار تباہی کے کنارے پہنچا دیے ہیں کیونکہ انہیں گدھے کا گوشت استعمال کرنے کا ذمہ دار یا مجرم قرار دیا گیا ہے۔
فیک نیوز واچ ڈاگ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق مذکورہ تمام فوڈ چینز اور ریسٹورنٹس سوشل میڈیا کی اس غیر حقیقی مہم جوئی پر پریشان اور نوحہ کناں ہیں کہ کس طرح دہائیوں سے کروڑوں کا کاروبار کرنے والے ادارے اس مہم کا شکار ہیں۔ اگرچہ ان اداروں نے وضاحتی جوابی مہمات شروع کر دی ہیں تاہم یہ بات بھی موضوع بحث ہے کہ بلاجواز و بلاثبوت منفی مہم جوئی بڑے پیمانے پر نقصان کا سبب ہے اور عوام میں بھی غیر ضروری اور غیر حقیقی مباحثے کا سبب بنتے ہیں اور شکوک وشبہات بڑھ جاتے ہیں۔
اس حوالے سے نئے قوانین بشمول پیکا ایکٹ کے استعمال اور اس رحجان کے تدارک پر بھی بحث جاری ہے۔۔۔۔ اس حوالے سے مزید نئے انکشافات کی توقع ہے۔