گاندھی جی نے جناح کو لکھا: ’لکھنؤ میں آپ کی تقریر جنگ کے اعلان کی طرح لگ رہی تھی۔‘ جناح نے جواب دیا: ’مجھے افسوس ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ یہ اعلان جنگ ہے، یہ خود کا دفاع ہے۔‘
گاندھی اور جناح کبھی ایک ساتھ اور ایک مشن کے تحت کام کرتے تھےانڈیا میں ’بابائے قوم‘ کہلائے جانے والے رہنما موہن داس کرمچند گاندھی اور پاکستان میں ’قائد اعظم‘ کہلائے جانے والے رہنما محمد علی جناح انڈین ریاست گجرات میں پیدا ہونے والی ایسی دو شخصیات ہیں جنھوں نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔
ان کی کہانی ایک ایسی دوستی کی کہانی بھی ہے جو تحریک آزادی کے دوران پروان چڑھی اور تقسیم ہند پر تحلیل ہوگئی۔
گاندھی اور جناح، جو کبھی ایک دوسرے کا احترام کرتے تھے، واضح طور پر ہندو مسلم اتحاد کی اہمیت پر متفق تھے۔ لیکن اس وقت سیاسی منظر نامے پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور معاشرے اور برادریوں کے بارے میں ان کے مختلف نقطہ نظر نے اختلافات کو جنم دیا جو مرتے دم تک قائم رہے۔
جناح کا یہ عقیدہ تھا کہ ہندو اور مسلمان کبھی بھی ایک ملک کی تشکیل کے لیے اکٹھے نہیں ہو سکتے۔ تاہم آزادی کی تحریک میں پیش پیش رہنے والی معروف رہنما سروجنی نائیڈو نے ایک بار جناح کو ’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘ کے طور پر سراہا تھا۔
جناح نے بعد میں گاندھی کو ایک ہندو رہنما کے طور پر پیش کر کے مہاتما کی وسیع شناخت کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ بلاشبہ، ایسا کرنے سے انھیں ایک مسلم رہنما کے طور پر اپنی شبیہ کو مزید مستحکم کرنے کا موقع بھی ملا۔
ہندو مسلم اتحاد کی وکالت کرنے والے قائدین کے طور جانے جانے کے بجائے بالآخر، گاندھی اور جناح لوگوں کے ذہنوں میں ہندو اور مسلم اکثریتی قوموں کے رہنما کے طور پر جانے گئے جو ایک دوسرے کے سیاسی اور نظریاتی مخالف تھے۔
ایسا کیا ہوا کہ جناح، جنھوں نے گاندھی کو کبھی ’مہاتما‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا، آخرکار انھیں ’ہندو لیڈر‘ کہنے لگے؟ یہاں تک کہ گاندھی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے جناح نے انھیں ہندو برادری کا رہنما قرار دیا۔
آئیے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کون سے واقعات اور نظریات تھے جو دونوں رہنماؤں کے درمیان دوستی کا باعث بنے، جنھوں نے قوموں کی تعمیر میں اہم کردار ادا کیا اور پھر ایسا کیا ہوا کہ ان کی دوستی کا خاتمہ ہوا۔
جناح اور گاندھی جو پہلے ایک دوسرے کے حامی تھے
محمد علی جناح جنوری 1915 میں گاندھی کی جنوبی افریقہ سے ہندوستان واپسی کا جشن منانے کے لیے بمبئی میں سر جہانگیر پیٹ کے گھر پر منعقد ہونے والے ایک جلسے میں نہ صرف شریک تھے بلکہ انھوں نے وطن واپسی پر گاندھی کا استقبال بھی کیا۔
یہی نہیں بلکہ جناح نے گاندھی جی کو ان کے ہندو ہونے کے باوجود مسلم لیگ کے 1915 کے اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی۔
یہیں سے ان کا ’ترش و شیریں‘ رشتہ شروع ہوا۔ اکتوبر 1916 میں گاندھی جی نے احمد آباد میں منعقدہ کانگریس کی بمبئی صوبائی کانفرنس کی صدارت کے لیے جناح کا نام تجویز کیا۔ اس اجلاس میں احمد آباد میں محمد علی جناح کا شاندار استقبال کیا گیا۔
گاندھی اور جناح کے تعلقات میں کئی اتار چڑھاؤ آئے۔ لیکن سنہ 1937 کے بعد دونوں کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔ اس سے پہلے دونوں رہنما ’ہندو مسلم اتحاد‘ کے سرخیل کے طور پر جانے جاتے تھے۔
دونوں کے درمیان اختلافات 1920 میں اس وقت شروع ہوئے جب گاندھی نے برطانوی راج کے خلاف عدم تعاون کی تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ جناح کا خیال تھا کہ یہ تحریک ملک میں ’افراتفری اور تشدد کو بڑھا دے گی۔‘
جب کانگریس میں جناح کی پوزیشن کمزور پڑنے لگی
گاندھی جی کے پوتے راج موہن گاندھی اپنی کتاب ’مسلم من کا آئینہ‘ میں لکھتے ہیں کہ ’قومی سطح پر ان کی (جناح کی) پوزیشن 1916-17 سے کمزور پڑنے لگی۔۔۔ وہ خود کو الگ تھلگ محسوس کرنے لگے۔‘
’تاہم، ان کا خیال تھا کہ کسی وقت لہر ان کے حق میں ہو جائے گی۔‘
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں: ’لہروں کا رخ مڑا، لیکن ان کی سمت میں نہیں۔ جنوری 1919 میں امپیریل کونسل کا غداری مخالف رولٹ بل پیش کیا گیا تو وائسرائے سے اس کی واپسی کی اپیل کی گئی۔‘
’انھیں خبردار کیا گیا کہ اگر یہ بل منظور ہوا تو اس کا پورے ملک پر اثر پڑے گا۔ گاندھی نے پورے ملک کی توجہ اس جانب مبذول کروائی۔ انھوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ تشدد کے خلاف ہیں۔‘
جناح 1909 سے اس کونسل (قانون ساز اسمبلی) کے رکن تھے، انھوں نے بھی اس بل کی شدید مخالفت کی۔
انھوں نے کہا کہ ’آپ کو بتانا میرا فرض ہے کہ اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو آپ اس ساحل سے لے کر ملک کے دوسرے ساحل تک ایسی ناراضی اور اشتعال پیدا کریں گے جو آپ نے کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔‘
نہ گاندھی کی اپیل اور نہ ہی جناح کی وارننگ کا برطانوی راج پر کوئی اثر ہوا۔ برطانوی مقننہ نامزد اراکین پر مشتمل تھی، اس لیے یہ بل منظور کر لیا گیا۔
22 مارچ کو، وائسرائے نے منظور شدہ بل پر دستخط کیے تو اس نے قانون کا درجہ حاصل کر لیا۔
اگلے ہی دن، گاندھی نے ملک بھر کے لوگوں سے 6 اپریل کو اپنے کاروبار بند کرنے یعنی ہڑتال کی اپیل کی۔ یہی نہیں، اس دن انھوں نے برت رکھنے اور پوجا کرنے کی بھی اپیل کی۔ پانچ دن بعد، جناح نے بھی اس ’کالے قانون‘ کے خلاف احتجاجاً قانون ساز اسمبلی سے استعفیٰ دے دیا۔
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں: ’یہ اقدام غیر معمولی تھے۔ کیونکہ جناح کو قانون ساز اسمبلی سے پیار تھا۔ وہ یہاں پر پھلے پھولے۔ لیکن ان کی (بل کی) مخالفت نے اتنا ہنگامہ نہیں کیا جتنا گاندھی کی اپیل نے۔‘
’گاندھی اچانک کسی سٹار کی طرح ابھرے۔ انھوں نے وہ مقام حاصل کر لیا جس کا جناح ہمیشہ خود کو حقدار سمجھتے تھے۔ انھوں نے ہمیشہ اس کے لیے کوششیں کیں اور 1916-17 میں اس مقام پر تقریباً پہنچ گئے تھے۔‘
’ایسا کیوں ہوا؟ اس کا کوئی سیدھا جواب نہیں۔ لیکن سچ یہ ہے کہ گاندھی اب اس مقام پر تھے جہاں جناح ہو سکتے تھے۔‘
1920 میں ناگپور میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس میں جناح نے خود کو الگ تھلگ محسوس کیا۔
گاندھی کی مقبولیت میں اضافہ ہونے لگاگاندھی اور جناح میں ’تحریک عدم تعاون‘ کے بعد علیحدگی
کچھ عرصے تک دونوں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے۔ گاندھی نے جناح سے قانونی مدد مانگی کیونکہ وہ برطانوی راج کی طرف سے ان کے خلاف دائر توہین عدالت کے مقدمے کا سامنا کر رہے تھے۔
1919 کے اخیر میں جب امرتسر میں کانگریس کا اجلاس ہوا تو جناح نے گاندھی کو ’مہاتما گاندھی‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
مصنف گنونت شاہ اپنی کتاب ’گاندھی کا چشمہ‘ میں لکھتے ہیں: ’اس کے بعد جناح نے کبھی گاندھی کو مہاتما کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔‘
لیکن جب گاندھی نے انگریزوں کے خلاف عدم تعاون کی تحریک کا اعلان کیا تو جناح نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔
کلکتہ میں کانگریس کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے جناح نے کہا: ’مسٹر گاندھی نے ملک کے سامنے عدم تعاون کا پروگرام پیش کیا ہے، آپ اسے قبول کرتے ہیں یا نہیں، یہ آپ پر منحصر ہے۔ میں ایک بار پھر حکومت سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ہندوستان کے لوگوں کو بے بس نہ کرے، ورنہ ان کے پاس عدم تعاون کی پالیسی پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچے گا۔ لیکن عدم تعاون کا گاندھی کے پروگرام جیسا ہونا ضروری نہیں ہے۔‘
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں: ’ایک ماہ بعد، گاندھی اور جناح کے درمیان پہلی جھڑپ ہوئی۔ ہوم رول لیگ کی صدارت اب گاندھی کو سونپی گئی تھی۔ اکتوبر میں، گاندھی کی پہل پر، اس کا نام بدل کر ’سوراجیہ سبھا‘ رکھ دیا گیا۔‘
’اس کا آئین بھی تبدیل کر دیا گیا۔ اس کا مقصد سلطنت کے تحت خود مختاری کی بجائے سیلف رول حاصل کرنا تھا۔‘
’جناح برسوں سے اس تنظیم سے وابستہ تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ سلطنت کے تحت خود مختاری کے معاملے کو علیحدہ رہنے دیا جائے۔‘
جناح نے گاندھی جی پر الزام لگایا کہ ’انھیں اپنی میٹنگ میں آئین کو تبدیل کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اور گاندھی جی جناح سے متفق نہیں تھے۔‘
ماؤنٹ بیٹن جناح اور نہرو کے درمیانجناح کا گاندھی پر ’ڈکٹیٹر‘ ہونے کا الزام
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں: ’جناح نے گاندھی پر ڈکٹیٹر ہونے کا الزام لگایا۔ انھوں نے گاندھی جی کی اصلاحات کی مخالفت کرنے والے 18 دیگر لوگوں کے ساتھ استعفیٰ بھی دے دیا۔‘
’گاندھی نے جناح کو خط لکھا اور کہا کہ وہ ان کے استعفیٰ سے افسردہ ہیں۔‘ انھوں نے لکھا: ’میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ آپ اپنے استعفے پر غور کریں۔ میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ ملک کو درپیش ذمہ داریوں میں اپنا حصہ ادا کریں۔‘
راج موہن گاندھیاپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جناح کو گاندھی کی یہ تجویز پسند نہیں آئی کہ انھیں ایک کردار دیا جائے۔
انھوں نے جواب دیا: ’ملک کے سامنے جو ذمہ داری ہے اس میں اپنا حصہ ڈالنے کی تجویز کے لیے آپ کا شکریہ۔ اگر نئی ذمہ داری کا مطلب آپ کے پروگرام کی پیروی ہے تو مجھے نہیں لگتا کہ میں اسے قبول کر سکتا ہوں۔ یہ صرف تباہی کا باعث بنے گا۔‘
اسی سال دسمبر میں، جناح نے کانگریس اور لیگ کے درمیان عدم تعاون کے فیصلے کو حتمی شکل دینے کے لیے ناگپور میں بلائے گئے اجلاس میں ایک بار پھر گاندھی کی مخالفت کی۔ مدن موہن مالویہ نے بھی گاندھی کی مخالفت کی۔
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں: ’گاندھی اور جناح، جو کانگریس اور ملک کو اپنے ساتھ جیتنے کی دوڑ میں مصروف تھے، الگ الگ ہونے کے پابند تھے، حالانکہ دونوں ’ہندو مسلم اتحاد‘ جیسے نظریات پر ہم خیال تھے۔‘
جناح پہلی بار سوٹ کے بجائے شیروانی میں نظر آئےجناح مسلمانوں کی طرف
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں: ’شاید انھیں احساس ہو گیا کہ ان کا مستقبل مسلم کمیونٹی کے ساتھ ہے۔ وہ جانتے تھے کہ وہ قانون ساز اسمبلی میں ایک مسلم حلقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انھیں لبرل ازم اور کمیونٹی میں سے انتخاب کرنا تھا اور انھوں نے کمیونٹی کا انتخاب کیا۔‘
جنوری 1922 میں، جب گاندھی کی تحریک اپنے عروج پر تھی، جناح نے وقتی طور پر لیڈر بننے کی خواہش کو ترک کر دیا اور کچھ دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر گاندھی اور انگریزوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی۔
اسی دوران مسلم لیگ نے انھیں لاہور اجلاس کی صدارت کی دعوت دی۔ وہ مخمصے میں تھے۔
ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں انھوں نے کہا: ’میں کہتا ہوں کہ جس دن ہندو اور مسلمان متحد ہو جائیں گے، ہندوستان ایک ذمہ دار حکومت حاصل کر لے گا۔‘
دریں اثنا جیل سے رہا ہونے کے بعد گاندھی نے جناح کے بیان پر ردعمل دیا۔ انھوں نے کہا: ’میں مسٹر جناح سے متفق ہوں۔ ہندو مسلم اتحاد کا مطلب ہے سوراجیہ (سیلف رول)۔‘
1925 میں قانون ساز اسمبلی میں جناح نے کہا تھا کہ ’میں پہلے قوم پرست ہوں، اور دوسرے بھی قوم پرست ہوں۔‘
لیکن ملک میں ہندو مسلم اتحاد پر شکوک و شبہات برقرار تھے۔ گاندھی اور جناح اس مسئلے پر کئی بار کانفرنسوں میں ملے، لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔
جواہر لعل نہرو اور مہاتما گاندھیجناح کا کانگریس پر ’ہندوتوا‘ کا الزام
کانگریس رہنما سردار پٹیل، مولانا ابو الکلام آزاد اور جواہر لعل نہرو کا خیال تھا کہ جناح سے نمٹنا مشکل ہوگا۔
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں کہ ’گاندھی بھی جناح کو اہمیت نہیں دینا چاہتے تھے جو نہرو، سردار اور آزاد کے اثر کو ختم کر دیں۔‘
’انھوں نے ہمیشہ کہا کہ اسلام تیزی سے پھیلا اس لیے نہیں کہ یہ تلوار سے پھیلا ہے بلکہ اس کی سادگی، منطقی پیغام اور اس کے پیغمبر کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے پھیلا ہے۔ انھوں نے اسلام کو ایک ایسا مذہب قرار دیا جو دنیا میں امن، راحت اور نئی روشنی لائے گا۔‘
لیکن گاندھی کے بہت سے ہندو علامتوں والے الفاظ، تجربات اور طرز عمل نے جناح کو ناراض کیا۔ وہ انھیں ’ہندوتوا‘ کا پروپیگنڈا سمجھتے تھے۔
مثال کے طور پر، جناح نے گاندھی کے ’رام راجیہ‘ کے تصور کو ’ہندو راج‘ سے تعبیر کیا۔
سینیئر صحافی اور مصنف ایم جے اکبر اپنی کتاب ’گاندھیز ہندوازم، دی سٹرگل اگینسٹ جناحز اسلام‘ میں لکھتے ہیں: ’گاندھی امن کی بات کرتے ہیں، لیکن یہ ایک ایسے اصول پرست مدعی کی منافقت ہے جس کا مقصد مسلمانوں کو اقتدار سے ہٹانا ہے۔‘
’جب ان کے آشرموں میں بین المذاہب عبادات کی جانے لگیں، اور قرآن کی آیات کی تلاوت کی گئی، تو ان کے ایک ہندو دوست نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ وہ ہندو مذہب کو تباہ کر رہے ہیں۔ انھوں نے جواب دیا، ’قرآن کا مطالعہ ہندوؤں کے دلوں کو پاک کر دے گا۔‘
گنونت شاہ لکھتے ہیں: ’گاندھی جی کی مذہبیت، خود شناسی کی عادت، عدم تشدد، سچائی پر مبنی طرز زندگی، سادگی اور عاجزی کو جناح کے لیے سمجھنا ممکن نہیں تھا۔‘
مشہور صحافی اور مصنف لوئس فشر کے نوٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے گنونت شاہ لکھتے ہیں: ’کچھ کھوجہ مسلمان دوبارہ ہندو بننا چاہتے تھے، لیکن انھیں ایسا کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نتیجے کے طور پر، جناح کے لاشعوری ذہن میں ہندوؤں کے لیے ناپسندیدگی پیدا ہو گئی ہو گی۔‘
وہ لکھتے ہیں: ’ہندوؤں کی طرح تقسیم کو پسند کرنے والے لوگوں کو متحد کرنا مشکل ہے۔ اگر کوئی مذہب تبدیل کر کے دوبارہ ہندو بننا چاہتا ہے تو سناتنی اسے واپس لینے سے روکیں گے۔ اس طرح ہندو غیر ہندوؤں کو ’ملیچھہ‘ سمجھتے رہے اور مسلمان ہندوؤں کو ’کافر‘ کہتے رہے۔ انگریزوں نے اس مذہبی حماقت کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔‘
محمد علی جناح کو گاندھی ’قائد اعظم‘ کہتے رہےجب محمد علی جناح ’مسٹر جناح‘ بن گئے
راج موہن گاندھی لکھتے ہیں کہ جناح نے اس (تقسیم کرو اور حکومت کرو کی برطانوی پالیسی) کا فائدہ اٹھایا۔
’کانگریس کے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد، جناح نے کہا کہ کانگریس کمیٹی نے ایسا برتاؤ کرنا شروع کر دیا ہے جیسے ہندو راج آ گیا ہو۔‘
جناح نے کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے مسلم نمائندوں کو ’پٹھو‘ کہا۔ راج موہن گاندھی نوٹ کرتے ہیں: ’محمد علی جناح اب مسٹر جناح بن چکے تھے۔‘
لکھنؤ میں، انھوں نے پہلی بار اپنا کوٹ اور ٹائی اتار کر شیروانی اور پاجامہ پہنا۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے لباس میں نظر آئے۔ یہاں انھوں نے مکمل آزادی کا نعرہ دیا۔
گاندھی جی نے جناح کو لکھا: ’لکھنؤ میں آپ کی تقریر جنگ کے اعلان کی طرح لگ رہی تھی۔‘ جناح نے جواب دیا: ’مجھے افسوس ہے کہ آپ کو لگتا ہے کہ یہ اعلان جنگ ہے، یہ خود کا دفاع ہے۔‘
گاندھی نے پھر لکھا: ’مجھے آپ کی تقریر میں آپ کی پرانی قوم پرست شخصیت نظر نہیں آتی۔ کیا آپ وہی پرانے جناح ہیں؟‘
جناح نے لکھا: ’میں یہ نہیں کہنا چاہوں گا کہ لوگ 1915 میں آپ کے بارے میں کیا سوچتے تھے اور آج وہ آپ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔‘
مارچ 1940 میں مسلم لیگ کی لاہور کانفرنس نے ایک علیحدہ اور خودمختار مسلم ریاست کی تجویز پیش کی۔ لاہور میں جناح نے کہا: ’ہندو اور مسلمان کبھی بھی مشترکہ طور پر ایک قوم نہیں بنا سکتے۔‘
گاندھی ’پاکستان کے باپو‘
گاندھی اس وقت 75 سال کی عمر کے قریب پہنچ رہے تھے اور جناح 68 کے ہونے والے تھے۔ ممبئی میں مالابار ہلز میں واقع ان کے بنگلے پر دونوں 14 بار ملے۔ 1944 میں ان ناکام مذاکرات کے بعد گاندھی نے کہا: ’ہم دوست بن کر الگ ہو گئے۔ میرا یقین ہے کہ مسٹر جناح ایک اچھے آدمی ہیں۔‘
دوسری طرف ہندو بنیاد پرست رہنما بھی اس ’گاندھی نواز‘ رویے سے سخت ناراض تھے۔
چنانچہ کانگریس کی طرف سے مولانا ابوالکلام آزاد کا خیال تھا کہ گاندھی ’غلطی‘ کر رہے ہیں۔ تاہم، بعض نے دونوں رہنماؤں کے درمیان مفاہمت کی امید بھی ظاہر کی۔ لیکن مذاکرات ناکام رہے۔
ممبئی مذاکرات کے تین سال بعد جناح نے الگ ملک پاکستان حاصل کیا۔ تقسیم ہند کے چند ماہ کے اندر اندر گاندھی اور جناح دونوں کی موت ہو گئی۔
گاندھی جی کو گولی مارنے والے ناتھورام گوڈسے نے عدالت میں بیان دیا کہ ’گاندھی جی کو باپو کہا جاتا تھا، حقیقت میں وہ پاکستان کے باپو تھے۔ ان کی اندرونی آواز، اس کی روحانی طاقت، اس کا فلسفہ، یہ سب کچھ جناح کے سامنے منہدم ہو گیا۔‘
یہ گاندھی جی کے خلاف ہندو بنیاد پرستوں کا ’غصہ‘ تھا۔
گاندھی کے قتل کے بعد جناح نے انھیں خراج عقیدت پیش کیا لیکن اس میں انھوں نے گاندھی جی کو ’ہندو لیڈر‘ کہا۔
گاندھی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے، انھوں نے کہا: ’میں گاندھی پر حملے اور قتل کی وجہ جان کر حیران ہوں، ہمارے اختلافات مختلف جگہوں پر پائے جاتے ہیں لیکن وہ ہندوؤں میں پیدا ہونے والے عظیم انسانوں میں سے ایک تھے۔‘