’ہاکی کا میراڈونا‘ شہباز احمد جس کی برق رفتاری کے حریف بھی معترف تھے

image
میرے دونوں چچا کھلاڑی تو نہ بن سکے لیکن ان میں صرف ایک سپورٹس مین ہی بستا تھا۔ کھیل کوئی بھی ہو ان دونوں کی دلچسپی کم نہ تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ یہ 1980 کی دہائی تھی جب ہاکی پر پاکستان کا راج تھا اور ہر اہم میچ کی ریڈیو پر کمنٹری نشر ہوتی تھی اور دونوں بڑے شوق سے کمنٹری سنتے چاہے رات کے تین ہی کیوں نہ بج رہے ہوں۔

کمنٹیٹرز کے بعض جملے تو انہیں اَزبر ہو گئے تھے۔ جو کچھ اس طرح سے تھے: ’گیند شہباز جونیئر کے پاس، شہباز جونیئر سے طاہر زمان کے پاس اور طاہر زمان سے شہباز احمد (سینیئر) کے پاس، شہباز احمد ڈی کے اندر اور یہ گول۔‘ اور بعض اوقات یہ ہوتا تھا کہ شہباز احمد نے پینلٹی کارنر حاصل کر لیا ہے۔

آج ہم پاکستان ہاکی کے مایہ ناز کھلاڑی شہباز احمد کو یاد کر رہے ہیں کیونکہ وہ آج سے کوئی 57 سال قبل یکم ستمبر 1968 کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔

فیلڈ ہاکی کے چند مایہ ناز فارورڈ کھلاڑیوں میں شمار ہونے والے شہباز احمد کو بعد میں شہباز سینیئر کے نام سے جانا گیا کیونکہ ان کے نام کے ایک دوسرے کھلاڑی بھی پاکستان کی ہاکی ٹیم کا حصہ بن گئے تھے۔

شہباز احمد کو ان کے کھیل کی وجہ سے ’ہاکی کا میراڈونا‘ کہا گیا جو ان کے کھیل کے اعلٰی معیار کا جہاں غماز ہے وہیں دنیائے ہاکی میں ان کے مرتبے کو بھی بیان کرتا ہے۔

انہیں ان کی فیلڈ میں رفتار کی وجہ سے ’مین ود الیکٹرک ہیلز‘ یعنی سیماب پائی کا خطاب ملا۔ ان کی ڈربلنگ کی مہارت اور ہاکی سٹک پر ان کے کنٹرول کو بے مثال قرار دیا گیا۔ اس معاملے میں انڈیا کے ان کے پیشر رو محمد شاہد ہی شاید ان کا مقابلہ کر سکتے تھے۔

شہباز احمد کو 18 سال کی عمر میں 1986 میں نیشنل ہاکی ٹیم میں شامل کر لیا گیا جس کے بعد انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

شہباز احمد نے پاکستان کے لیے ہاکی کا ورلڈکپ جیتا۔ فائل فوٹو: اے پی پی

آٹھ سال بعد وہ اس پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے جس نے 1994 میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں ہونے والے ورلڈ کپ میں نیدرلینڈز کو تین گول کے مقابلے چار گول سے شکست دے کر ٹرافی حاصل کی تھی۔

یہ میچ ایک ایک گول سے برابر تھا۔ پاکستان کی جانب سے کامران اشرف نے گول کیا تھا جبکہ نیدر لینڈ  کی طرف سے فلورس جان بوولینڈر نے گول کیا تھا۔ فیصلہ پینلٹی پر ہوا جس میں پہلا گول شہباز احمد نے داغا تھا پھر شہباز جونیئر نے گول کیا تھا۔ طاہر زمان اور محمد عثمان نے بھی اپنے اپنے گول کیے، صرف شفقت ملک گول سکور نہ کر سکے۔

اسی سال پاکستان کے شہر لاہور میں ہونے والی چیمپیئنز ٹرافی میں بھی انہوں نے پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرایا۔

سڈنی میں آسٹریلیا کے خلاف گروپ میچ میں شہباز احمد نے جو کھیل پیش کیا تھا وہ 30 سال گزرنے کے بعد بھی ہاکی سے دلچسپی رکھنے والے بہت سے لوگوں کی یادداشت میں محفوظ ہے۔

آسٹریلیا نے پاکستان کے ڈی کے بالکل باہر ایک فری ہٹ لگائی جسے روک کر پاکستان کے شہباز کو گیند پاس کی گئی اور وہ جس رفتار سے گیند لے کر بڑھے وہ اپنے آپ میں ہاکی کا یادگار لمحہ بن گیا۔ ان کے پیچھے آسٹریلیا کے کین ورک تھے جو کسی طرح ان کے قریب نہ پہنچ پا رہے تھے۔ پھر ایک آسٹریلین کورنگ ڈیفنڈر نے انہیں روکنے کی کوشش کی جس سے قبل انہوں نے ریورس سِٹک سے فلک کر کے گیند کامران اشرف کو بڑھا دیا جنہوں نے بال کو گول پوسٹ میں ڈال دیا۔

اس میچ کو شہباز نے وہ لمحہ قرار دیا ہے جب پاکستان نے ٹرافی حاصل کرنے کے لیے کھیلنا شروع کیا۔

شہباز احمد نے دو سال قبل دی برج کے ایک مضمون کے مطابق پاکستانی ہاکی کے گرتے معیار پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جس قدر فخر اور خوشی میں نے 1994 کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد ہمارا قومی ترانہ سنتے ہوئے محسوس کی تھی۔ اتنا ہی درد میں اب پاکستان میں ہاکی کی حالت کو دیکھ کر محسوس کر رہا ہوں۔‘

شہباز احمد کے مطابق اب پاکستانی ہاکی کھلاڑیوں میں جذبے کی کمی ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی

انہوں نے اسی سال اپریل کے مہینے میں سپورٹس سٹار کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ’ہمارے پاس ٹیلنٹ ہے، لیکن جذبے کی کمی ہے۔ مجھے ان میں وہ جنون نظر نہیں آتا، وہ بھوک نظر نہیں آتی کہ وہ پاکستان کے قومی کھیل کی میراث کو آگے بڑھائیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ایک اور بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ سالوں تک مقامی یا جونیئر سطح پر کھیلنے کے بعد، بہت سے کھلاڑی ہزار دو ہزار ڈالر کمانے کی خاطر ہانگ کانگ، ملائیشیا اور تھائی لینڈ وغیرہ میں غیرمعیاری اوورسیز لیگز میں حصہ لینے کے لیے نکل جاتے ہیں اور قومی سطح پر کھیل کو چھوڑ دیتے ہیں۔ ان کے پاس جرمنی یا نیدرلینڈز کی ٹاپ لیگز میں جگہیں محفوظ کرنے کے معیار کی کمی ہے، اس لیے وہ ان چھوٹے مقابلوں پر قناعت کر جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے یہ ان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو تا ہے، اور وہ مزید ترقی کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔

پاکستان کے لیے سب سے طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے کپتان شہباز احمد کو اپنے عروج کے زمانے میں شائقین اور حریف یکساں طور پر سراہتے تھے۔ انہوں نے پاکستان کا پرچم ایک ایسے وقت میں سربلند رکھا تھا جب یورپی ممالک کھیل میں طاقت کے توازن کو جھکا رہے تھے۔

وہ اس وقت ہاکی کے افق پر ابھرے جب فٹبال کے لیجنڈ میراڈونا نے اپنی ٹیم کو فٹبال ورلڈ کپ کے خطاب سے ہمکنار کرایا تھا۔

شہباز احمد سنہ 2002 تک قومی ٹیم کے لیے کھیلتے رہے۔

1994 ورلڈ کپ کے بار ے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوگ یہ کہہ رہے تھے ’ارے یہ ورلڈ کپ کیا چائے کا کپ بھی جیت کر نہیں لا سکتے۔‘ لیکن ’میرے خیال میں پول میچ میں آسٹریلیا کو شکست دینے نے ہمارے راستے کو بدل دیا۔‘

پاکستان میں ہاکی کا کھیل طویل عرصے سے زوال پذیر ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

شہباز احمد نے کہا کہ ’جیت نے ہمارے لڑکوں کو متحد کر دیا اور ایک کپتان کے طور پر، میری توجہ ایک اچھی شروعات پر مرکوز تھی۔ میں نے ٹیم کو متحد رکھا اور ملک کے لیے ورلڈ کپ جیتنے کے لیے حوصلے بلند رکھے۔‘

ورلڈ کپ کے علاوہ شہباز احمد نے 1992 کے اولمپکس میں ٹیم کو کانسی کا تمغہ دلوایا۔ یہ اولمپکس بارسلونا میں منعقد ہوا تھا۔ ان کے کچھ ایوارڈز میں تیسرے ایشیا کپ میں سونے کا تمغے، چیمپئنز ٹرافی میں چاندی کے تمغے اور بی ایم ڈبلیو ٹرافی شامل ہیں۔

شہباز احمد بین الاقوامی فیلڈ ہاکی میں 304 کیپس کے ساتھ سب سے زیادہ میچز کھیلنے والے پاکستانیوں کی فہرست میں سرفہرست ہیں۔

ان کی گرانقدر خدمات کے لیے انہیں ہلالِ پاکستان (کریسنٹ آف پاکستان) ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ہاکی کے میدان میں ان کی شاندار خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں 1992 میں پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US