اینا پاؤلا مارٹنز کے جسم کے ہر خلیے میں ایکس ایکس (XX) کروموزومز ہیں جو خواتین کی جنسی خصوصیات سے متعلق ہوتے ہیں لیکن ان کے خون کے خلیوں میں ایکس وائی (XY) کروموزومز ہیں، جو عام طور پر مردوں میں پائے جاتے ہیں۔
اینا پاؤلا اور ان کے جڑواں بھائیاینا پاؤلا مارٹنز کے جسم کے ہر خلیے میں ایکس ایکس (XX) کروموزومز ہیں جو خواتین کی جنسی خصوصیات سے متعلق ہوتے ہیں لیکن ان کے خون کے خلیوں میں ایکس وائی (XY) کروموزومز ہیں، جو عام طور پر مردوں میں پائے جاتے ہیں۔
اس نوعیت کے پہلے کیس میں ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اینا پاؤلا کا خون ان کے جڑواں بھائی سے آیا، جب وہ دونوں اپنی والدہ کے پیٹ میں تھے۔
اس بارے میں انکشاف 2022 میں اینا پاؤلا کے اسقاط حمل کے بعد ہوا۔
طبی جانچ کے دوران ڈاکٹر نے انھیں ایک ایسے ٹیسٹ کا مشورہ دیا، جو کسی شخص کے خلیات میں کروموزومز کی جانچ کرتا ہے اور اس ٹیسٹ کے لیے خون کے نمونے لیے جاتے ہیں۔
اینا پاؤلا بتاتی ہیں کہ ’لیبارٹری نے مجھے فون کیا اور دوبارہ ٹیسٹ کروانے کا کہا۔‘
ٹیسٹ کے نتائج سے پتہ چلا کہ ان کے خون میں ایکس وائی کروموزومز موجود ہیں، جس کے بعد اینا پاؤلا اور ڈاکٹر بھی پریشان ہو گئے۔
برازیل کے ڈاکٹر گوستو میکیل کہتے ہیں کہ ’میں مریض کا معائنہ کرنے گیا تو میں نے دیکھا کہ ان میں خواتین والی تمام نارمل خصوصیات تھیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ان میں بچہ دانی اور بیضہ دانی موجود تھی اور بیضہ دانی کام کر رہی تھی۔‘
اس کے بعداینا پاؤلا کو ساؤ پولا کے البرٹ آئن سٹائن ہسپتال بھیجا گیا، جہاں جینیات کے ڈاکٹر کایو کوائیو نے ڈاکٹر گوستو میکیل اور دیگر کے ساتھ تحقیق کا آغاز کیا۔
ایک انسان کے جسم میں دو افراد کا ڈی این اے
انسانوں میں کروموزوم کے 23 جوڑے ہوتے ہیںتحقیق کے دوران اینا پاؤلا نے بتایا کہ ان کا ایک جڑواں بھائی بھی تھا اور اس اہم معلومات کی بدولت یہ کیس سمجھ میں آنے لگا۔
اینا پاؤلا کے ڈی این اے کے موازنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے خون کے خلیات ان کے جڑواں بھائی جیسے ہیں۔
پروفیسر میکیل کہتے ہیں کہ ’وہ اپنے منہ کے ڈی این اے، جلد کے ڈی این اے میں اینا پاؤلا ہی ہیں لیکن خون میں وہ اپنے بھائی کی طرح ہیں۔‘
اینا پاؤلا کو کائمیرا ہے، جس میں ایک انسان کے جسم میں دو افراد کا ڈی این اے ہوتا ہے۔
کچھ طبی پیچیدگیوں کے علاج کے دوران مریضوں کو کائمیرا کا مسئلہ ہو جاتا ہے: جیسے بون میرو ٹرانسپلانٹ، مثال کے طور پر جب لیوکیمیا کے شکار لوگوں کو ڈونر سیل ملتے ہیں۔
لیکن ڈاکٹر کایو کے مطابق اچانک کائمیرا کا ہونا ’ایک بہت ہی نایاب عمل‘ ہے۔
اس بارے میں سائنسی تحریروں کا جائزہ لینے کے بعد محققین نے متعدد دوسرے ممالیہ جانوروں میں جڑواں حمل کے ایسے واقعات کی نشاندہی کی جہاں مختلف صنف کے بہن بھائیوں کے درمیان خون کا تبادلہ ہوا۔
محققین کو شک ہے کہ ماں کے پیٹ میں اینا پاؤلا اور ان کے جڑواں بھائی کے پلیسنٹا میں کسی قسم کا رابطہ ہوا، جس سے خون کی نالیوں کا آپس میں رابطہ قائم ہوا جو بچے سے خون کو اینا پاؤلا تک لے جاتی تھیں۔
پروفیسر میکیل بتاتے ہیں کہ ’یہ منتقلی کا ایک عمل تھا جسے ہم جنین سے جنین کو منتقلی کہتے ہیں۔ حمل کے دوران کسی وقت دونوں کی رگیں اور شریانیں پلیسنٹا میں جڑی ہوں گی اور بچے نے اپنا خون اینا پاؤلا کو پہنچا دیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اور سب سے دلچسپ چیز یہ ہے کہ یہ خلیات اینا پاؤلا کی پوری زندگی ان کے پاس رہے۔‘
خیال کیا جاتا ہے کہ بھائی کے خون کے خلیات نے اینا پاؤلا کے بون میرو میں جگہ بنا لی، جس نے ایکس وائی کروموسوم کے ساتھ خون پیدا کرنا شروع کر دیا جبکہ ان کا باقی جسم ایکس ایکس کروموسوم ہی رہا۔
ڈاکٹر کایو کے مطابق ’اینا کے جسم میں اپنے بھائی کا تھوڑا سا حصہ اب بھی دوڑ رہا ہے۔‘
(فائل فوٹو)ایک نایاب حمل
ڈاکٹروں کی ٹیم کا خیال ہے کہ یہ غیر معمولی کیس انسانی مدافعت اور تولیدی عمل میں تحقیق میں مدد کر سکتا ہے۔
پروفیسر میکیل کہتے ہیں کہ ’اینا کے کیس کی بدولت ہمیں ٹرانسپلانٹ کے معاملات کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔‘
خواتین میں ایکس وائی کروموسومز کی نایاب موجودگی کی رپورٹس تو سامنے آئی ہیں لیکن یہ اکثر تولیدی مسائل سے جڑی ہوتی ہیں۔
مگر اینا پاؤلا کے معاملے میں ایسا نہیں۔ اس تحقیق کے دوران ہی وہ دوبارہ حاملہ ہوئیں اور ایک صحت مند بچے کو جنم دیا۔
جینیاتی تجزیے سے پتہ چلا کہ بچے کا ڈی این اے توقع کے مطابق ہے یعنی آدھے کروموسوم اس کی ماں اور آدھے اس کے والد سے ہیں جبکہ بچے کے انکل سے کوئی کروموسوم نہیں۔
پروفیسر میکیل کہتے ہیں کہ ’اینا پاؤلا کے انڈے میں ان کا جینیاتی مواد تھا اور ان میں گردش کرنے والے خون نے مداخلت نہیں کی۔‘
اینا پاؤلا کے لیے یہ بہت ضروری تھا کہ وہ اس جینیاتی تبدیلی کی وجہ جان پائیں اور اس سے بھی اہم یہ کہ یہ حمل میں مداخلت نہیں کرے گی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو میرے مقصد کی راہ میں حائل ہو سکتی تھی، مجھے اپنا بچہ پیدا کرنا تھا۔‘