گذشتہ ہفتے مشرقی افغانستان میں آنے والے طاقتور زلزلے سے مرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے اور جمعرات کو یہ 2200 سے زیادہ ہو گئی ہے۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اتوار کو دیر گئے آنے والے 6.0 شدت کے زلزلے میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق صوبہ کنڑ سے تھا جہاں طالبان حکومت کے مطابق 2205 افراد ہلاک اور 3640 زخمی ہوئے ہیں۔ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیونکہ رضاکار اور امدادی کارکن اب بھی ملبے سے لاشیں نکال رہے ہیں۔حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے جمعرات کو ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’تلاش اور ریسکیو کی کارروائیوں کے دوران تباہ شدہ گھروں سے سینکڑوں لاشیں برآمد کی گئی ہیں، جبکہ رسیکیو آپریشن ابھی بھی جاری ہے۔‘بار بار آنے والے آفٹر شاکس اور پتھر گرنے سے پہاڑی صوبہ کنڑ کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں تک رسائی محدود ہو گئی ہے جس سے امدادی کارروائیوں میں تاخیر ہو رہی ہے۔نور گُل کے شدید متاثرہ علاقے میں سینکڑوں دیہاتی اب بھی کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ خیموں میں کئی خاندانوں نے عارضی پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ انہیں نہ صرف خوراک کی شدید قلت کا سامنا ہے بلکہ یہ بھی معلوم نہیں کہ اگلا نوالہ کہاں سے آئے گا۔ اگرچہ مختلف ممالک کی جانب سے امدادی سامان پہنچایا جا رہا ہے، لیکن زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ متاثرین تک فوری مدد پہنچانا اب بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔مزار درہ کے میدان میں سینکڑوں افراد امداد کے انتظار میں خیمہ زن ہیں اور وہاں خوراک کی محدود مقدار پہنچنے پر شدید جھگڑا شروع ہو گیا۔ علاقے میں اب تک بہت کم امداد پہنچی ہے۔متاثرہ شخص ظاہِر خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’کل کچھ لوگ خوراک لے کر آئے، سب ان پر ٹوٹ پڑے، لوگ بھوکے ہیں، ہمیں کافی عرصے سے کچھ کھانے کو نہیں ملا۔‘عالمی ادارہ صحت کے افغانستان میں ہنگامی ٹیم کے سربراہ جمشید تنولی نے کہ کہ’ہر لمحہ اہم ہے۔ ہسپتال جدوجہد کر رہے ہیں، خاندان سوگوار ہیں اور زندہ بچ جانے والے سب کچھ کھو چکے ہیں۔‘
Caption