آسٹریلیا: سڈنی کے ساحل پر ’بڑی شارک‘ کے حملے میں ایک شخص ہلاک

image
آسٹریلوی پولیس اور ریسکیو حکام نے کہا ہے کہ سڈنی کے ایک مشہور ساحل پر ایک ’بڑی شارک‘ کے حملے میں ایک سرفر مارا گیا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنیچر کو اس خطرناک حملے کے بعد ساحل کو عوام کے لیے بند کر دیا گیا۔

پولیس اور ریسکیو حکام کے مطابق 57 سالہ مقامی شخص اپنے پانچ چھ دوستوں کے ساتھ سڈنی کے شمالی ساحل پر لانگ ریف اور ڈی وائے بیچ کے قریب سمندر میں سرفنگ کر رہا تھا۔

پولیس سپرنٹنڈنٹ جان ڈنکن نے نیوز کانفرنس میں بتایا کہ حملے میں تجربہ کار سرفر اپنے جسم کے کئی اعضا سے محروم ہو گئے۔

انہوں نے کہا کہ ’میری معلومات کے مطابق وہ اور ان کا بورڈ دونوں پانی کے اندر غائب ہو گئے تھے۔ بعد میں لاش سمندر میں تیرتی ہوئی ملی۔‘

پولیس سپرنٹنڈنٹ کا کہنا تھا کہ ’چند سرفرز نے انہیں ساحل تک پہنچایا، تاہم اس وقت تک ان کا کافی خون ضائع ہو چکا تھا اور طبی امداد کے باوجود وہ بچ نہ سکے۔‘

پولیس کا کہنا ہے کہ قریب موجود لوگوں نے سمندری درندے کو دیکھا، جس کے بعد یہ یقین ہو گیا کہ یہ شارک کا حملہ تھا۔

جان ڈنکن کے مطابق مقتول کا سرفنگ بورڈ بھی دو ٹکڑوں میں ٹوٹا ہوا تھا۔

پولیس کے مطابق حکومتی ماہرین سرفر کی لاش اور ٹوٹے بورڈ کا معائنہ کریں گے تاکہ یہ تعین کیا جا سکے کہ حملہ کس نسل کی شارک نے کیا۔ آسٹریلیا میں زیادہ تر خطرناک حملے گریٹ وائٹ، بُل شارک اور ٹائیگر شارک کی جانب سے ہوتے ہیں۔

پولیس کا کہنا ہے کہ قریب موجود لوگوں نے سمندری درندے کو دیکھا، جس کے بعد یہ یقین ہو گیا کہ یہ شارک کا حملہ تھا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سرف لائف سیونگ نیو ساؤتھ ویلز کے مطابق مینلی اور ناریبین کے درمیان تمام ساحل کم از کم 24 گھنٹے کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔ ادارے کے سربراہ اسٹیون پیئرس نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس دوران پانی سے دور رہیں اور لائف گارڈز کی ہدایات پر عمل کریں۔

خیال رہے کہ یہ سڈنی میں سنہ 2022 کے بعد شارک کا پہلا مہلک حملہ ہے۔ اس سے قبل 35 سالہ برطانوی انسٹرکٹر سائمن نیلسٹ لٹل بے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس سے پہلے شہر میں آخری مہلک حملہ سنہ 1963 میں ہوا تھا۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US