نیپال میں نوجوان مظاہرین نے پارلیمنٹ کی عمارت کو آگ لگا دی، جبکہ 73 سالہ وزیراعظم کے پی شرما اولی نے مشتعل عوام کے دباؤ پر استعفیٰ دے دیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق منگل کو کٹھمنڈو کی سڑکیں مظاہرین سے بھر گئیں، کچھ خوشی سے جشن مناتے رہے، جبکہ دیگر نے سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی اور خودکار رائفلیں لہراتے رہے۔
ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بدامنی نے سب کو چونکا دیا ہے۔ نیپال کی فوج نے خبردار کیا ہے کہ ایسی ’سرگرمیاں جو ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیل سکتی ہیں‘، ناقابل برداشت ہوں گی۔
پیر کے روز سوشل میڈیا پر پابندی اور بدعنوانی کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے، جنہیں کچلنے کے لیے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا، اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق مظاہرین پر براہِ راست گولیاں بھی چلائیں۔ ان مظاہروں میں کم از کم 19 افراد ہلاک ہو گئے، جو کہ حالیہ برسوں میں سب سے خونی کریک ڈاؤن تصور کیا جا رہا ہے۔منگل کو حکومت کی جانب سے پابندی ہٹائے جانے اور ایپس کی بحالی کے باوجود، مظاہرے دوبارہ شدت اختیار کر گئے اور دارالحکومت سے نکل کر ملک کے مختلف شہروں میں پھیل گئے۔مظاہرین کے نمایاں رہنما سودن گرونگ نے انسٹاگرام پر کہا کہ ’نیپال کی حکومت گر چکی ہے، نوجوانوں نے احتجاج جیت لیا ہے۔ مستقبل ہمارا ہے۔‘صدر کی اپیلاسی روز مشتعل ہجوم نے 73 سالہ سابق وزیراعظم اور کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کے پی شرما اولی کے گھر پر حملہ کیا اور آگ لگا دی۔ ان کے موجودہ مقام کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں۔نیپال کی پارلیمنٹ کی عمارت بھی مظاہرین کے نشانے پر آ گئی۔ پارلیمنٹ سیکرٹریٹ کے ترجمان اکرام گیری کے مطابق مظاہرین نے پارلیمنٹ کی باڑ توڑ کر اندر داخل ہو کر ’مرکزی عمارت کو آگ لگا دی۔‘صدر رام چندر پاؤڈیل، جن کے دفتر کو بھی آگ لگا دی گئی، نے قوم سے پُرامن رہنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’میں تمام فریقین سے اپیل کرتا ہوں کہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور مزید نقصان نہ ہونے دیں۔‘تاہم ان کی اپیل پر عمل ہوتا دکھائی نہیں دیا۔
مظاہرین نے کٹھمنڈو میں کئی سرکاری عمارتوں کو آگ لگا دی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
زیادہ تر نوجوان مظاہرین قومی پرچم لہراتے ہوئے واٹر کینن سے بچتے نظر آئے۔ انٹرنیشنل کرائسس گروپ نے اس صورتحال کو ’ملک کے غیرمستحکم جمہوری سفر کا ایک اہم موڑ‘ قرار دیا ہے۔
کھٹمنڈو ایئرپورٹ کھلا رہا، تاہم ترجمان رنجی شرپا کے مطابق، کچھ پروازیں منسوخ کر دی گئیں کیونکہ دھوئیں کے باعث حدِ نگاہ متاثر ہوئی۔’جین زی کی تحریک‘وزیراعظم کے پی شرما اولی نے منگل کو اپنے بیان میں کہا کہ ’میں آج سے وزیراعظم کے عہدے سے مستعفی ہو رہا ہوں تاکہ سیاسی حل کی جانب مزید پیش رفت ممکن ہو سکے اور مسائل کا حل نکالا جا سکے۔‘ان کا سیاسی کیریئر تقریباً چھ دہائیوں پر محیط رہا، جس دوران نیپال نے ایک دہائی طویل خانہ جنگی دیکھی اور بالآخر سنہ 2008 میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد جمہوریہ بن گیا۔ وہ پہلی بار سنہ 2015 میں وزیراعظم بنے، پھر سنہ 2018 میں دوبارہ منتخب ہوئے، سنہ 2021 میں مختصر مدت کے لیے دوبارہ اقتدار میں آئے، اور بالآخر سنہ 2024 میں کمیونسٹ پارٹی اور نیپالی کانگریس کے درمیان اتحاد کے نتیجے میں ایک بار پھر حکومت بنائی۔اس صورت حال کے حوالے سے آئینی ماہر دیپیندرا جھا نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انقلاب کے تناظر میں، آئینی یا قانونی دفعات فی الحال لاگو نہیں ہوتیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ عام طور پر صدر کو پارلیمنٹ میں اگلے قائد کو اکثریت حاصل کرنے کی دعوت دینی چاہیے تھی۔
ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بدامنی نے سب کو چونکا دیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
دیپیندرا جھا کے مطابق ’اب مظاہرین، ان کے معتبر رہنما اور فوج کو مل کر عبوری حکومت کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔‘
کرائسس گروپ کے تجزیہ کار آشش پردھان نے بھی اس خیال کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ایک عبوری سیٹ اپ جلد تشکیل دینا ہو گا، جس میں وہ افراد شامل ہوں جن پر نیپالی عوام خاص طور پر نوجوان اعتماد کرتے ہوں۔‘کٹھمنڈو کے 35 سالہ میئر اور انجینیئر سے ریپر بننے والے بالیندرا شاہ، جو سنہ 2022 میں منتخب ہوئے اور عبوری قیادت میں ایک مقبول چہرے کے طور پر ابھرے ہیں، نے فیس بک پر عوام سے پُرامن رہنے کی اپیل کی۔وزیراعظم کے استعفے کے بعد انہوں نے لکھا کہ ’ہم نے واضح کر دیا تھا: یہ مکمل طور پر جین زی (سنہ 2000 کے بعد پیدا ہونے والے بچے) کی تحریک ہے۔‘’یہ تمہاری نسل کا وقت ہے کہ ملک کی قیادت سنبھالے۔ تیار رہو!‘حکومت کے خلاف عوامی غصہ پہلے ہی عروج پر تھا، کیونکہ نیپال کی آبادی کا تقریباً 43 فیصد حصہ 15 سے 40 برس کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق ملک میں بے روزگاری کی شرح تقریباً 10 فیصد ہے اور فی کس جی ڈی پی محض 1447 ڈالر ہے۔جمعے کو حکومت نے 26 غیررجسٹرڈ پلیٹ فارمز پر پابندی لگاتے ہوئے فیس بک، یوٹیوب اور ایکس سمیت کئی سوشل میڈیا ویب سائٹس بلاک کر دیں۔ تاہم ٹک ٹاک کو بلاک نہیں کیا گیا، اور وہیں پر سیاسی اشرافیہ کے بچوں کی عیاشیوں اور عام نیپالیوں کی مشکلات کا موازنہ کرنے والی ویڈیوز وائرل ہو گئیں۔
کے پی شرما اولی کا سیاسی کیریئر تقریباً چھ دہائیوں پر محیط رہا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
مظاہروں میں شامل ایک 26 سالہ شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ مایوسی دو دہائیوں سے جمع ہو رہی تھی، بدعنوانی نے اسے ہوا دی۔‘
’جو کچھ آپ اب دیکھ رہے ہیں، وہ محض سوشل میڈیا سے بھڑکنے والی ایک چنگاری ہے۔‘