برطانوی شہزادہ ہیری کی ایک سال سے زائد عرصے کے بعد اپنے والد شاہ چارلز سوم سے لندن میں ملاقات ہوئی۔خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بکنگھم پیلس نے شاہ چارلس اور شہزادہ ہیری کی ملاقات کی تصدیق کی ہے۔دونوں نے کلیئرنس ہاؤس میں ایک ساتھ کچھ وقت گزارا جہاں شاہ چارلس صرف اس صورت میں رہائش پذیر ہوتے ہیں جب ان کا ہسپتال میں علاج جاری ہو۔ شہزادہ ہیری اور اہلیہ میگھن مرکل کے 2020 میں شاہی خاندان سے علیحدگی کے بعد باپ اور بیٹے کے درمیان فاصلے بڑھ گئے تھے۔بدھ کی دوپہر کو شہزادہ ہیری کو بکنگھم محل کے قریب واقعہ کلیئرنس ہاؤس میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا گیا تاہم والد کے ساتھ تقریباً ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد وہ روانہ ہو گئے۔شہزادہ ہیری نے لندن میں انواکٹس گیمز فاؤنڈیشن کی تقریب میں بھی شرکت کی جو بیمار یا زخمی فوجی اہلکاروں کے لیے کام کرتی ہے۔ملکہ الزبتھ دوئم کی وفات کی تیسری برسی کے موقع پر شہزادہ ہیری پیر کو چار روزہ دورے پر برطانیہ پہنچے تھے۔ اس دوران انہوں نے کئی خیراتی اداروں کا دورہ بھی کیا جن کو وہ مدد فرام کرتے ہیں۔76 سالہ شاہ چارلس کے نمائندوں کی شہزادہ ہیری سے جولائی 2024 میں ملاقات ہوئی تھی جس کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید دونوں کے درمیان برف پگھل رہی ہے.شہزادہ ہیری اور اہلیہ میگھن مرکل نے پانچ سال قبل ایک ٹی وی پروگرام میں شاہی خاندان کے حوالے سے اپنی شکایات کا ذکر کیا تھا۔
شہزادہ ہیری اور میگھن مرکل نے شاہی خاندان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ فوٹو: اے ایف پی
اس کے بعد ’سپیئر‘ کے نام سے شہزادہ ہیری کی سوانح عمری شائع ہوئی جس میں انہوں نے خاندانی واقعات کی تفصیلات بیان کیں۔ اس کتاب کے بعد دونوں خاندانوں کے تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔
شہزادہ ہیری کی اپنے والد سے فروری 2024 میں ملاقات ہوئی تھی جب انہیں معلوم ہوا کہ شاہ چارلس کینسر کے مرض میں مبتلا ہیں۔یہ ملاقات صرف 45 منٹ پر محیط تھی جس کے بعد شاہ چارلس سینڈرنگھم اسٹیٹ کے لیے روانہ ہو گئے تھے جہاں انہوں نے علاج کے دوران کچھ وقت گزارا تھا۔شہزادہ ہیری کا اپنے بڑے بھائی اور ولی عہد شہزادہ ولیم سے بہت کم رابطہ رہا ہے۔ایک موقع پر شہزادہ ہیری نے شاہی خاندان کے ساتھ مفاہمت کی خواہش کا بھی اظہار کیا تھا۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کو انٹرویو میں شہزادہ ہیری نے کہا تھا کہ ’لڑائی جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ زندگی قیمتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میرے والد کے پاس جینے کے لیے مزید کتنے سال ہیں۔‘