بھارتی کمپنیوں اور آئی پی ایل میں فرنچائز اونرز کا دوسری ٹی ٹونٹی لیگز میں اثر بڑھتا جا رہا ہے اور اس کا نقصان پاکستانی کھلاڑیوں کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے کچھ لیگز میں اب پلیئرز آکشن یا ڈرافٹ میں پاکستانی کھلاڑیوں کو نہیں لیا جا رہا ہے۔
ساؤتھ افریقہ کی ٹی ٹونٹی لیگ میں تمام فرنچائز ٹیمیں بھارتی ملکیت میں ہے اور آئی پی ایل کے مختلف فرنچائزز کے مالکان نے ساؤتھ افریقہ لیگ میں بی ٹی میں خرید لی ہیں۔ حالیہ ہونے والے ساؤتھ افریقہ لیگ کے آکشن میں 40 پاکستانی کھلاڑیوں نے اپنا نام دیا تھا لیکن ایک بھی کھلاڑی سلیکٹ نہیں ہوا جبکہ 83 پلیئرز کو اس آکشن میں خریدا گیا۔
دوسری ٹی ٹونٹی لیگ جیسے کہ انٹرنیشنل ایمریٹس لیک کیریبین پریمیر لیگ انگلینڈ میں ہونے والی دی 100 اور یو ایس اے میجر لیگ میں کافی فرنچائزز اس وقت یا تو بھارتی کمپنیوں کے یا آئی پی ایل کے فرنچائزز کے ملکیت میں ہیں جس کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان لیگز میں پاکستانی کھلاڑیوں کا شامل ہونا مشکل نظر آتا جارہا ہے۔
آسٹریلیا میں ہونے والی بگ بیش لیگ میں بابر اعظم، محمد رضوان، شاہین شاہ آفریدی اور دوسرے پاکستانی کھلاڑیوں کو اس سال لیا گیا ہے اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ بگ بیش میں کوئی ٹیم بھی بھارتی ملکیت میں نہیں ہے۔ 2008 کے بعد آئی پی ایل میں کسی پاکستانی پلیئر کو نہیں مدعو کیا گیا۔
کرکٹ اینالسٹ اور رائٹر ڈاکٹر نعمان نیاز کا کہنا ہے کہ جو پاکستان اور بھارت کی کشیدگی ہے اس کی وجہ سے بھارتی کرکٹ بورڈ اور فرنچائز مالکان کرکٹ میں بھی پاکستان کو آئسلیٹ کرنا چاہتے ہیں اور کھلاڑیوں کو معاشی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو ابھی سے کوئی لائحہ عمل تیار کرنا پڑے گا۔