پشاور کے ونود کھنہ جنہوں نے اداکاری و سیاست کی، سنیاس لیا اور زندگی کو کھل کر جیا

image
یہ ایک ایسے اداکار کی کہانی ہے جس کا ابھی سپرسٹار کے طور پر جنم نہیں ہوا تھا مگر اس کے باوجود وہ روایتوں کو توڑ رہے تھے۔ پُرکشش شخصیت کے حامل، غیرروایتی اور اپنے فیصلوں میں بے باک۔ انہوں نے آغاز تو منفی کرداروں سے کیا مگر جلد ہی صفِ اول کے ہیرو بن گئے، اور پھر شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر سب کچھ تیاگ دیا۔

ذکر ہو رہا ہے ماضی کے سپرسٹار اور وجیہہ ترین اداکار ونود کھنہ کا جن کی کہانی صرف شہرت کی نہیں، بلکہ جرأت، تبدیلی کو قبول کرنے اور روحانی جستجو سے عبارت ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ونود کھنہ کا ذکر اکثر ایک ایسے اداکار کے طور پر کیا جاتا رہا ہے جنہوں نے امیتابھ بچن کے بالی وڈ پر اقتدار کو چیلنج کیا۔

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ونود کھنہ کی کامیاب ترین فلم ’قربانی‘ کے لیے فلم کے پروڈیوسر اور اداکار فیروز خان نے پہلے امیتابھ بچن سے ہی بات کی تھی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا تھا اور یوں ونود کھنہ کے لیے وہ دروازہ کھل گیا جس سے اُن کی زندگی بدل گئی۔ یہ کردار اُن کے کیریئر میں سنگِ میل ثابت ہوا۔

اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’محض ایک کروڑ 55 لاکھ روپے کے محدود بجٹ میں بنی فلم ’قربانی‘ نے غیرمعمولی کامیابی حاصل کی، جس نے صرف انڈیا میں چھ کروڑ اور دنیا بھر میں 12 کروڑ روپے سے زیادہ کا کاروبار کیا جو اُس دور کے لحاظ سے غیرمعمولی تھا۔‘

کہا جاتا ہے کہ اس فلم نے اس قدر کمائی کی کہ فیروز خان کو صرف حساب رکھنے کے لیے ایک الگ ٹیم رکھنا پڑی۔

اخبار ’دی ہندو‘ کے مطابق اداکار نے کہا تھا کہ ’میں نے کامرس میں گریجویشن مکمل کیا ہی تھا کہ میرے آئیڈیل آنجہانی سنیل دت کی نظر مجھ پر پڑی۔ میں نوعمری سے ہی سنیل دت کا مداح تھا اور اُن کی فلموں ’مدر انڈیا‘، ’سجاتا‘ اور ’ہم راز‘ میں اُن کی متنوع اداکاری نے مجھے بےحد متاثر کیا تھا۔‘

ونود کھنہ نے کہا تھا کہ ’مجھے پہلی فلم کے بعد اندازہ ہوا کہ اپنی اداکاری کو بہتر بنانے کے لیے بہت محنت درکار ہے۔‘ (فوٹو: گیٹی امیجز)

انہوں نے کہا تھا کہ ’انہوں (سنیل دت) نے مجھے اپنی فلم ’من کا میت‘ میں ولن کے کردار کے لیے منتخب کیا، جس میں اُن کے بھائی سوم دت ہیرو تھے۔ مجھے جس دن پہلی بار کیمرے کے سامنے کھڑا ہونا تھا تو میرا جوش دیدنی تھا۔ میں نے جب اپنے پہلے مکالمے بولے تو بدن میں جھرجھری سی دوڑ گئی جیسے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہوں۔ وہ لمحات اب دھندلے پڑ چکے ہیں، مگر اتنا یاد ہے کہ میرا کردار ایک عام ولن کا تھا، چند روایتی مناظر اور ایکشن۔ کچھ ایسا نہیں جو یادوں میں ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتا۔‘

ونود کھنہ نے اپنے فنی سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے مزید کہا تھا کہ ’مجھے پہلی فلم کے بعد اندازہ ہوا کہ اپنی اداکاری کو بہتر بنانے کے لیے بہت محنت درکار ہے، کیوں کہ میں ’من کا میت‘ کے کئی مناظر میں میں خود کو پُراعتماد محسوس نہیں کر رہا تھا۔‘

ونود کھنہ نے کہا کہ ’بعد میں فلم ’پورب اور پچھم‘ میں منوج کمار نے مجھے ایک مختصر مگر اہم کردار دیا۔ اُن کی ہدایت کاری میں، میں نے اپنی اداکاری کو نکھارا اور کیمرے کا زیادہ اعتماد کے ساتھ سامنا کیا۔ اس کے بعد ’سچّا جھُوٹا‘ اور ’آن ملو سجنا‘ جیسی فلمیں آئیں، جن میں، میں نے مثبت اور منفی دونوں طرح کے کردار ادا کیے۔ یہ فلمیں زبردست کامیاب ہوئیں اور انہوں نے مجھے بطور اداکار اپنی پہچان بنانے میں مدد دی۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ ’راج کھوسلہ کی فلم ’میرا گاؤں میرا دیش‘ میں میرا ولن کے طور پر کردار میرے ابتدائی فلمی کیریئر کی یادگار ترین پرفارمنس تھی۔ مجھے اس فلم کے بعد فلمی دنیا میں قدم جمانے کا موقع ملا۔ بعد ازاں گلزار کی تخلیقی نگاہوں نے میرے اندر کے اداکار کو پہچانا اور ’اچانک‘ اور ’میرے اپنے‘ جیسی فلموں میں میرے فن کو بھرپور انداز میں بڑے پردے پر پیش کیا۔ یہ دونوں بطور مرکزی اداکار میری بہترین فلموں میں شمار ہوتی ہیں۔‘

سال1971 سے 1982 تک بالی وڈ میں ونود کھنہ کے بالی وڈ میں سفر کو روکنا ناممکن ہو گیا تھا (فوٹو: انڈین ایکسپریس)

ونود کھنہ کے فلمی سفر پر مزید بات کرنے سے قبل یہ ذکر کرنا ازبس ضروری ہے کہ بالی وڈ کا یہ بے مثل اداکار آج ہی کے روز 6 اکتوبر 1946 کو غیر منقسم ہندوستان کے شہر پشاور کے ایک پنچابی خاندان میں پیدا ہوا۔

اُن کے والد کشور چند کھنہ ٹیکسٹائل اور کیمیکل کے کاروبار سے وابستہ تھے، جبکہ والدہ کا نام کملا کھنہ تھا۔ تقسیمِ ہند کے وقت اُن کا خاندان پشاور سے بمبئی (موجودہ ممبئی) منتقل ہو گیا۔

ونود کھنہ نے ایک پرانے انٹرویو (2002) میں اس دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم بمبئی پہنچے، جہاں میرے والد کا دفتر تھا۔ ابتدا میں ہم دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ رہے۔ میں پڑھائی میں اچھا تھا اور اساتذہ کا چہیتا بھی۔ 1957 میں، جب میں چھٹی جماعت میں تھا، ہم دہلی منتقل ہو گئے۔‘

ونود کھنہ کو بورڈنگ سکول میں تعلیم کے دوران اس وقت فلموں میں دلچسپی پیدا ہوئی جب انہوں نے فلم ’مغلِ اعظم‘ دیکھی جس کے بعد انہوں نے اس خواب کی تعبیر پا کر ہی دم لیا۔

سال1971 سے 1982 تک بالی وڈ میں ونود کھنہ کے سفر کو روکنا ناممکن ہو گیا تھا۔ اس دوران انہوں نے ’ہیرا پھیری‘ (1975)، ’مقدر کا سکندر‘ (1975)، ’ضمیر‘ (1975)، ’خون پسینہ‘ (1977)، ’پرورش‘ (1977)  اور ’امر اکبر انتھونی‘ (1977)  سمیت 47 سے زائد کامیاب ملٹی سٹارر فلموں میں کام کیا۔

فلمی تجزیہ کار اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی فلم میں ونود کھنہ شامل ہوں تو گویا کامیابی کی مہر لگ گئی۔ اُن کا نام ہی شائقین کو سینما گھروں تک کھینچ لاتا اور باکس آفس پر فلم کی کامیابی کی ضمانت بن جاتا تھا۔

سال 1978 تک ونود کھنہ اپنے کیریئر کے عروج پر تھے۔ فلمی جریدے سٹارڈسٹ نے تو یہ سرخی جمائی کہ ’ونود کھنہ بن گئے نمبر ون!‘

ایک انٹرویو میں ونود کھنہ نے کہا تھا کہ ’میں نمبر ون نہیں بننا چاہتا، بس ہر لمحے کو جینا چاہتا ہوں۔‘ (فوٹو: انڈیا ٹوڈے)

انہوں نے ان دنوں ہی اس وقت سب کو حیران کر دیا جب وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر گرو رجنیش (اوشو) کے آشرم سے منسلک ہو گئے۔

بعد ازاں سال 1987 میں اخبار ’انڈیا ٹوڈے‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ونود کھنہ نے کہا تھا کہ ’میں نمبر ون نہیں بننا چاہتا۔ بالکل نہیں۔ میں تو بس ہر لمحے کو جینا چاہتا ہوں اور جو کام کروں، دل سے اور اچھے طریقے سے کروں۔‘

یہی وہ اندرونی سکون اور دنیاوی دوڑ سے بےنیازی تھی جس نے ونود کھنہ کو محض ایک فلمی ستارہ نہیں، بلکہ ایک عہد ساز شخصیت بنا دیا۔

انہوں نے اپنی اس روحانی کایا کلپ کے بارے میں کہا تھا کہ ’میں ہمیشہ سے ایک متلاشی رہا ہوں۔ فلم انڈسٹری میں میرے پاس دولت، شہرت اور چمک دمک سب کچھ تھا مگر میں سوچتا تھا، اب اس کے بعد کیا؟ ابتدا میں ہر ہفتے کے آخر میں پونے میں اوشو کے آشرم جایا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اپنی شوٹنگ کا شیڈول بھی پونے کے مطابق بدل لیتا تھا۔ 31 دسمبر 1975 کو میں نے بالآخر باقاعدہ دِکشا (اوشو کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوئے) لی۔ میں نے جب فلموں سے ریٹائرمنٹ کا اعلان کیا تو کسی نے یقین ہی نہیں کیا۔‘

انہوں نے اپنے سنیاسی دور کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں اوشو کا مالی تھا۔ میں اُن چند ہندوستانیوں میں سے ایک ہوں جو اوشو کے ساتھ امریکہ میں رجنیش پورم نامی شہر میں رہے جسے اوشو نے خود بسایا تھا۔ میں نے چار سال اُن کے ساتھ گزارے۔ میں اُن کا مالی تھا، بیت الخلا صاف کرتا تھا، برتن دھوتا تھا، اور اُن کے کپڑے مجھ پر آزمانے کے لیے دیے جاتے تھے کیونکہ ہم دونوں کا قد و قامت تقریباً ایک سا تھا۔‘

انہوں نے سنیاس سے وقفہ لیا اور دوبارہ ممبئی کا رُخ کیا۔ انہوں نے اس بارے میں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’میں نے واپس بالی وڈ کا رُخ کیا۔ فلموں میں لوٹنا تو آسان تھا، مگر اپنے گرو کو امریکہ میں چھوڑ آنا تقریباً ناممکن فیصلہ تھا۔ اُنہوں نے مجھ سے پونا آشرم چلانے کے لیے کہا، مگر میں نے انکار کر دیا اور یہ میری زندگی کا مشکل ترین ’انکار‘ تھا۔‘

امیتابھ بچن نے بتایا تھا کہ کہ کس طرح اُن کی اور ونود کھنہ کی فلم ’ریشما اور شیرا‘ کی شوٹنگ کے دوران دوستی گہری ہوئی (فوٹو: کوئی موئی)

انہوں نے سال 1987 میں فلم ’انصاف‘ کے ذریعے بالی وڈ میں واپسی کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ونود کھنہ نے جب بالی وڈ سے کنارہ کشی اختیار کی تو وہ انڈسٹری کے واحد ایسے اداکار تھے جو امیتابھ بچن کے لیے چیلنج بن سکتے تھے۔

ٹائمز آف انڈیا اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے کہ ’70 کی دہائی امیتابھ بچن کے غیر معمولی عروج کی دہائی تھی، مگر اُن کے شانہ بشانہ ایک اور قدآور شخصیت کھڑی تھی جو کوئی اور نہیں بلکہ ونود کھنہ تھے۔ اپنی جاذبِ نظر شخصیت، بے ساختہ دلکشی اور سکرین پر اپنی کچھ یوں موجودگی کے ساتھ جو کسی بڑے سے بڑے سٹار کو ٹکر دے سکتی تھی، ونود کھنہ اُن چند اداکاروں میں سے ایک بن گئے جو نہ صرف امیتابھ کے برابر کھڑے نظر آئے بلکہ کئی مواقع پر اُن پر بازی بھی لے گئے۔‘

یہ وہ بنیادی وجہ تھی جس کے باعث بالی وڈ میں یہ تاثر فروغ پایا کہ دونوں اداکاروں میں غالباً پیشہ ورانہ رقابت ہے۔ سال 1998 میں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں ونود کھنہ نے صاف گوئی سے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’میں وہ واحد اداکار تھا جو امیتابھ بچن کا حقیقی حریف تھا۔ اُس وقت اُن کے مقابل کوئی دوسرا نہیں تھا۔‘

حقیقت تو یہ ہے کہ دونوں بہت اچھے دوست تھے۔ امیتابھ بچن نے ایک بار اپنے ایک بلاگ میں اس بارے میں ذکر کیا تھا کہ کس طرح اُن کی اور ونود کھنہ کی فلم ’ریشما اور شیرا‘ کی شوٹنگ کے دوران دوستی گہری ہو گئی۔

انہوں نے لکھا تھا کہ ’ریشما اور شیرا میں ایک ساتھ کام کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد اُن (ونود کھنہ) کے والد کا اچانک انتقال ہو گیا۔ میں اُس لمحے میں اُن کے ساتھ تھا اور پھر، ہم نے ایک ساتھ کئی کامیاب فلموں میں کام کیا۔‘

ونود کھنہ نے پہلی شادی گیتا انجلی سے کی جس سے ان کے دو بیٹے راہول اور اکشے ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

ان فلموں میں ہی ایک ’امر اکبر انتھونی‘ بھی ہے۔ ونود کھنہ نے ’امر اکبر انتھونی‘ میں ایک اصول پرست پولیس افسر کا کردار ادا کیا، جو امیتابھ بچن کے رنگین مزاج انتھونی کے مقابل کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ دونوں کی لڑائی کا منظر فلمی تاریخ کا ایک یادگار لمحہ بن گیا، نہ صرف اس لیے کہ امر نے انتھونی کو شکست دی جو اُس دور میں ایک غیرمعمولی بات تھی، کیونکہ شاید ہی کسی فلم میں امیتابھ بچن کو شکست خوردہ دکھایا گیا ہو، بلکہ اس لیے بھی کہ ونود کھنہ نے اس منظر کو جس حقیقت اور وقار سے ادا کیا، وہ ناقابلِ فراموش تھا۔

ونود کھنہ نے سال 2006  میں این ڈی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میرا اور امیتابھ کا تعلق ہمیشہ خوش گوار رہا۔ ہم نے بڑی ہم آہنگی کے ساتھ کام کیا۔ البتہ، ہمارے کردار ایک دوسرے سے بالکل مختلف نوعیت کے ہوتے تھے اور یہی فرق ہمیں سکرین پر ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم بناتا تھا۔‘

ونود کھنہ نے پہلی شادی گیتا انجلی سے کی جس سے ان کے دو بیٹے راہول اور اکشے ہوئے اور دونوں نے اداکاری کا ہی انتخاب کیا مگر ونود اور گیتا انجلی کی سال 1985 میں طلاق ہو گئی تھی جس کے کافی برس بعد ان کی کویتا سے حادثاتی ملاقات ہوئی جو جلد ہی محبت کے رشتے میں بندھ گئی۔

ونود اور کویتا دو الگ دنیاؤں کے مسافر تھے۔ ونود، ایک سپر سٹار اور کروڑوں دلوں کی دھڑکن تھے جب کہ کویتا ایک بیرسٹر تھیں اور ان کا کوئی فلمی پس منظر نہیں تھا۔ دونوں کی ملاقات بھی کسی فلمی منظر کی طرح اچانک ہوئی۔

ہوا کچھ یوں کہ کویتا ونود کے گھر ایک پارٹی میں چند دوستوں کے ساتھ شریک ہوئیں۔ اُس شام تو ان دونوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی، مگر ونود کے دل میں ایک ہلکی سی چنگاری ضرور روشن ہوئی۔ انہوں نے اگلے ہی دن کویتا کو فون کیا مگر وہ کئی دن تک اُن کے فون اٹھانے سے گریز کرتی رہیں۔

ونود کھنہ نے کویتا سے صاف کہہ دیا تھا کہ ’میں اب کبھی شادی نہیں کروں گا۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ونود کھنہ نے سِیمی گریوال کے شو میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ میری کالز اُٹھاتی ہی نہیں تھیں۔‘ جس پر کویتا فوراً بولیں، ’میں انجان بننے کے لیے ایسا نہیں کر رہی تھی۔ ونود نے مجھے ڈنر کے لیے بلایا تھا، تو میں نے صاف کہہ دیا، ’ونود، تم میرے دوست بن سکتے ہو مگر پارٹی یا ڈنر پر جانے کی بات بھول جاؤ۔‘

جب سیمی نے وجہ پوچھی تو کویتا نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’مجھے معلوم تھا کہ اگر میں ونود کھنہ کے ساتھ باہر گئی تو اُس کے کیا معنی نکالے جائیں گے۔‘

لیکن ونود کہاں ماننے والے تھے۔ وہ روز اُن سے بات کرنے کی کوشش کرتے۔ ان دونوں کا یہ تعلق رفتہ رفتہ محبت میں تبدیل ہو گیا۔

لیکن شادی کا فیصلہ آسان نہ تھا۔ ونود کھنہ نے کویتا سے صاف کہہ دیا تھا کہ ’میں اب کبھی شادی نہیں کروں گا۔‘ کویتا کے گھر والے فکرمند تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ’وہ مشہور آدمی ہے، تم 28 سال کی ہو، اُس نے کہہ دیا ہے کہ شادی نہیں کرے گا، تو تم یہ کیا کر رہی ہو؟‘ مگر کویتا نے دل کی سنی اور انتظار کیا۔

وقت گزرتا گیا اور ونود کے دل میں کویتا کے لیے محبت جڑ پکڑتی گئی۔ ایک دن ونود نے بیڈمنٹن کھیلنے کے بعد، پسینے سے شرابور، شارٹس پہنے، اچانک پوچھا: ’کویتا، کیا تم شادی کرنا چاہو گی؟‘

کویتا نے سوچا شاید یہ کوئی فلسفیانہ سوال ہے۔ بولیں، ’ہاں، کرنا چاہوں گی۔‘

ونود نے ہنس کر کہا، ’مجھ سے شادی کرو گی؟‘

کویتا کے منہ سے بے ساختہ ’ہاں‘ نکل گیا …

اور یوں وہ دونوں رشتۂ ازدواج میں بندھ گئے۔ ان دونوں کا یہ بندھن ونود کھنہ کی موت پر ختم ہوا۔

ونود کھنہ نے سال 1997 میں  بھارتیہ جنتا پارٹی کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا (وٹو: اے ایف پی)

کویتا سے شادی سے قبل اور اوشو کے آشرم سے واپسی کے بعد اداکار کی ابتدائی فلموں میں سے ایک ’دیاوان‘ بھی تھی جس میں ان کے ساتھ مادھوری ڈکشت دکھائی دیں۔

یہ فلم اپنی ریلیز کے ساتھ ہی موضوعِ بحث بن گئی۔ اس کی وجہ دونوں مرکزی اداکاروں کے درمیان فلمایا گیا ایک رومانی منظر تھا، جس پر اُس زمانے میں کافی چرچا ہوا۔

ونود کھنہ نے سال 1997 میں  بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے پلیٹ فارم سے اپنے سیاسی سفر کا آغاز کیا اور وہ اس میدان میں بھی کامیاب رہے۔

انہوں نے پنجاب کے ضلع گرداس پور کی پارلیمانی نشست سے چار مرتبہ لوک سبھا کی نمائندگی کی، اور سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں قومی جمہوری اتحاد (این ڈی اے) کی حکومت میں وزیرِ مملکت برائے امورِ خارجہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔

ونود کھنہ نے اپنی شرائط پر زندگی گزاری، انہوں نے سنیاس لیا، اداکاری کی، سیاست کی اور کھل کر زندگی جی۔ ان کی آخری فلم 2020 میں ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی۔ ان کو فلم فیئر کی جانب سے سال 1999 میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا جب کہ بعداز مرگ گراں قدر دادا صاحب پھالکے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

ونود کھنہ اگر اپنے عروج کے دنوں میں فلم انڈسٹری نہ چھوڑ دیتے تو شاید سپر سٹار ٹھہرتے مگر انہوں نے وہ کیا جو ان کے دل نے کہا جس کے باعث آج وہ اپنے کروڑوں پرستاروں کے دلوں میں بستے ہیں۔

 


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US