انڈیا میں دھورندھر کے ناقد ’منظم حملوں اور ہراسانی‘ کی زد میں: ’فلم پاکستان کو بے قابو اور وحشی معاشرے کے طور پر پیش کرتی ہے‘

اگرچہ فلم کے ایکشن سے بھرپور مناظر اور سنسنی خیز کہانی نے بہت سے فلم بینوں سے داد سمیٹی ہے تاہم فلم کے ہدایت کار آدتیہ دھر کی جانب سے سیاسی پیغام رسانی اور تاریخی واقعات کو پیش کرنے کے انداز پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔

انڈرورلڈ، ایکشن اور جاسوسی سے بھرپور بالی ووڈ کی نئی فلم دھورندھر جہاں انڈیا اور پاکستان دونوں ملکوں میںموضوع بحث بنی ہوئی ہے، وہیں دو ہمسایہ ممالک کے درمیان دیرینہ دشمنی کو متنازع انداز میں پیش کیے جانے پر یہ فلم کئی لوگوں میں بے چینی اور اضطراب کا سبب بھی بن رہی ہے۔

گذشتہ ہفتے سنیما گھروں میں ریلیز ہونے والی یہ فلم دیکھنے والوں کو جاسوسی، گینگ وار اور حب الوطنی سے بھرپور ایک تیز رفتار دنیا میں لے جاتی ہے۔

اس فلم میں بالی ووڈ سٹار رنویر سنگھ حمزہ نامی ایک انڈین جاسوس کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

حمزہ کے کردار میں رنویر سنگھ کو پاکستان کے شہر کراچی میں ایک انتہائی خطرناک مشن پر دکھایا جاتا ہے۔

جہاں فلم میں رنویر سنگھ ایک جانب جرم کے مختلف نیٹ ورکس اور خفیہ ایجنٹوں سے نمٹتے دکھائی دیتے ہیں، وہیں دوسری جانب وہ اپنے ذاتی خوف و نفسیاتی مسائل سے بھی لڑ رہے ہیں۔

اور یہ سب کچھ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدہ تعلقات کے پس منظر میں دکھایا گیا ہے۔

اگرچہ فلم کے ایکشن سے بھرپور مناظر اور سنسنی خیز کہانی نے بہت سے فلم بینوں سے داد سمیٹی ہے تاہم فلم کے ہدایت کار آدتیہ دھر کی جانب سے سیاسی پیغام رسانی اور تاریخی واقعات کو پیش کرنے کے انداز پر شدید بحث چھڑ گئی ہے۔

آدتیہ دھر کو پہلی بار 2019 میں قومی سطح پر اس وقت شہرت ملی جب ان کی پہلی فلم اُڑی: دی سرجیکل سٹرائیک‘ ریلیز ہوئی تھی۔

اُس فلم میں 2016 میں پاکستان پر انڈیا کے فضائی حملوں کو ڈرامائی شکل میں دکھایا گیا تھا۔

اڑی کو باکس آفس پر زبردست کامیاب ملی اور آدیتہ دھر کو قومی فلم ایوارڈ بھی ملا۔

اگرچہ دھورندھر بطور ہدایتکار آدیتہ کی صرف دوسری فلم ہے لیکن وہ اس سے قبل دیگر فلموں کے شریک مصنف اور پروڈیوسر بھی رہ چکے ہیں۔

ان ہی فلموں میں گذشتہ سال ریلیز ہونے والی آرٹیکل 370 شامل ہے، جسے 2019 میں انڈیا کے زیر انظام کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے تناظر میں بنایا گیا تھا۔

اس فلم کو بھیت زبردست کامیابی ملی یہاں تک کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس کو سراہا۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان دو دہائیوں کی بدترین فوجی جھڑپ کے چند ماہ بعد ریلیز ہونے والی دھورندھر میں آدتیہ دھر سیاسی تھرلر کی طرف ایک بار پھر لوٹتے نظر آتے ہیں۔

فلم میں تنگ و تاریک کمروں میں جان لیوا لڑائیاں ہوتی ہیں، گولیوں کی آوازیں گنجان گلیوں میں گونجتی ہیں، لاشوں کے ڈھیر لگتے ہیں، جبکہ اس فلم غیر معمولی اور طویل دورانیے کے پر تشدد اور اذیت ناک مناظر بھی دکھائے گئے ہیں۔

ان پر تشدد مناظر کو انتہائی قریب سے فلمایا گیا ہے جو دیکھنے والے کے اندر بے چینی کے احساس کو مزید بڑھا دیتا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس فلم کی تعریف اور تنقید دونوں کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے۔

کچھ لوگ اس کی سنیماٹوگرافی، بڑے وژن اور سنسنی خیز کہانی سے متاثر ہیں جبکہ دوسرے اسے حد سے زیادہ قوم پرستانہ، تشدد اوراشتعال انگیزی سے بھرپور فلم قرار دے رہے ہیں۔

اس بحث کے طول پکڑنے کے باعث بعض فلم ناقدین کو سخت ردِعمل اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

دھورندھر کے حامیوں نے ان ناقدین پر الزام لگایا ہے کہ وہ فلم کا جائزہ فنّی معیار سے نہیں لے رہے بلکہ ان کی آنکھوں پر سیاسی تعصب کی عینک لگی ہوئی ہے۔

اس بحث کے بڑھنے پر ناقدین کی تنظیم ’فلم کریٹکس گلڈ‘ نے رواں ہفتے ایک بیان جاری کیا جس میں ’دھورندھر پر تنقیدی آرا دینے والے فلم ناقدین کے خلاف منظم حملوں، ہراسانی اور نفرت انگیز رویوں‘ کی شدید مذمت کی گئی۔

تاہم متضاد اور منقسم ردِعمل کے باوجود یہ فلم بڑی تعداد میں فلم بینوں کو سینما گھروں تک کھینچ کر لانے میں کامیاب رہی ہے، جس کے باعث اسے سال کی بڑی ہٹ فلموں میں شمار کیا جانے لگا ہے۔

یہ رجحان حیران کن نہیں۔ حالیہ برسوں میں انڈین سنیما میں قوم پرستی پر مبنی ایسی بلاک بسٹر فلموں میں واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جن میں واضح طور پر حکومتی پالیسیوں اور تاریخی واقعات کا حوالہ دکھائی دے رہا ہے۔

ایسی ہی فلموں میں ’دی کشمیر فائلز‘ اور ’دی کیرالا سٹوری‘ بھی شامل ہیں، جنھوں نے تاریخی واقعات اور سیاسی بیانیے پر شدید تنازعات کے باوجود بہت کامیاب بزنس دیا۔

جاسوسی تھرلر فلموں میں بھی طویل عرصے سے یہی رجحان رہا ہے، جہاں اکثر پاکستان کو انڈیا کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔

یہ ایک مانوس بیانیہ ہے جو دونوں ممالک کے درمیان دہائیوں پر محیط جغرافیائی و سیاسی کشیدگی سے جڑا ہوا ہے۔

ان فلموں کے بنانے والوں کے مطابق ایسی فلموں سے ناظرین اس لیے وابستگی محسوس کرتے ہیں کیونکہ ایسے تاریخی اور عصری موضوعات کو عموماً کمرشل یا بزنس کے مقصد سے بنائی جانے والی فلموں میں موضوع گفتگو نہیں بنایا جاتا۔

ان کے مطابق ایسے موضوعات حساس، متنازع اور فرقہ وارانہ شناخت، تاریخی واقعات اور موجودہ سیاست سے وابستہ ہوتے ہیں۔

گذشتہ سال بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے دی کیرالا سٹوری کے ہدایتکار سدیپتو سین نے کہا تھا کہ ’میری فلمیں سیاسی نہیں بلکہ انسانی دلچسپی کی کہانیاں ہوتی ہیں۔

2023 میں ریلیز ہونے والی اس فلم سے متعلق دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ ہندو اور عیسائی خواتین کی ’سچی کہانی‘ بیان کرتی ہے، جنھیں اسلام قبول کروانے اور نام نہاد دولت اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے ورغلانے کے طور پر استعمال کیا گیا۔

تاہم بعض ناقدین کے مطابق اہم واقعات کے بارے میں کھلے عام من گھڑت بیانیہ پیش کرنے والی اس نوعیت کی فلمیں تفریح اور پروپیگنڈا کے درمیان فرق کو تیزی سے دھندلا رہی ہیں اور پیچیدہ تاریخی حقائق کو حد سے زیادہ سادہ اور یک طرفہ کہانیوں میں بدل دیتی ہیں۔

 دی کیرالا سٹوری
AFP via Getty Images
دی کیرالا سٹوری

فلم ناقد اُدے بھاٹیا کے مطابق جاسوسی سے بھرپور فلم دھورندھر میں بے لاگ اور قوم پرستی پر مبنی جارحانہ لہجہ نمایاں ہے اور یہ فلم اسی تیزی سے پھیلتی ہوئی خصوصیت کا واضح حصہ بنتی دکھائی دے ہے۔

یاد رہے کہ اپنی ریلیز سے قبل ہی فلم کو قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، جب انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کپواڑہ سیکٹر میں مارے جانے والے فوجی افسر کے خاندان نے الزام عائد کیا تھا کہ فلم کی کہانی کے بعض حصے ان کی زندگی پر مبنی ہیں اور اس کے لیے اجازت نہیں لی گئی۔

تاہم آدتیہ دھر نے اس الزام کی تردید کی تھی اور بالآخر انڈیا کے سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن نے فلم کو ایک خیالی (فکشن) تخلیق قرار دیتے ہوئے نمائش کی اجازت دے دی تھی۔

اس کے باوجود فلم میں واضح طور پر کئی حقیقی واقعات اور تاریخی تنازعات کودکھایا گیا ہے جن میں 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے اور 26/11 کے ممبئی دہشت گرد حملے کی اصل نیوز فوٹیج اور حقیقی آڈیو ریکارڈنگز شامل ہیں۔

درحقیقت فلم کا آغاز ہی 1999 میں انڈین مسافر طیارے کے اغوا کے ایک حوالے سے ہوتا ہے۔

فلم میں ہم انڈیا کے انٹیلیجنس چیف اجے سنیال کو بھی دیکھتے ہیں جن کا کردار اداکار آر مادھون نے نبھایا ہے جو طیارہ اغوا کے واقعے پر شدید ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان کو اسی کی سرزمین پر نشانہ بنانے کے عزم کا اعلان کرتے ہیں۔

فلم کی کہانی کے مطابق اسی مقصد کے تحت وہ اپنے سب سے قابل اعتماد ایجنٹ حمزہ کو کراچی بھیجتے ہیں تاکہ وہاں جرائم پیشہ گروہوں اور دہشت گرد نیٹ ورکس کے درمیان مبینہ روابط کو ختم کیا جا سکے۔

فلم میں ان دہشت گرد گروہوں کو پاکستانی حکومت کی خاموش سرپرستی حاصل کرتے دکھایا گیا ہے۔

آدتیہ دھر نے کراچی کو ایک تاریک اور خوفناک شہر کے طور پر دکھایا ہے۔ ایک پھیلا ہوا، بے لگام اور قانون سے عاری شہر جہاں اغوا، تشدد اور اذیت عام ہے اور حریف گینگز کے درمیان سفاک انتقامی کارروائیاں اور قتل و غارت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

بعض ناقدین نے فلم میں حقیقی تاریخی حیثیت رکھنے والے گینگ اور فلمی مبالغہ آرائی کو ایک ساتھ ملانے پر تنقید کی ہے۔

فلم ناقد اُدے بھاٹیا کہتے ہیں کہ ’یہ فلم پاکستان کو ایک ایسے بے قابو اور تقریباً وحشی معاشرے کے طور پر پیش کرتی ہے جوانڈیا کے خلاف جارحانہ عزائم اور دشمنی رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ، سرحد پار تنازع کو مذہبی تناظر میں بھی فریم کیا گیا ہے۔‘

تاہم بعض دوسرے ناقدین کا خیال ہے کہ یہ پیشکش حیران کن حد تک حقیقت سے قریب ہے۔

انڈیا ٹوڈے کی ویب سائٹ پر وینیتا کمار لکھتی ہیں: ’جس چیز کو آدتیہ دھر نے بہترین طریقے سے پیش کیا ہے وہ پاکستان کی عکاسی ہے۔ اس میں مضحکہ خیزی نہیں بلکہ یہ خاصی باریک بینی اور متوازن طریقے سےدکھائی گئی چیز ہے، خاص طورپر سیاست۔‘

یہ ردِعمل صرف انڈیا تک محدود نہیں بلکہ پاکستان میں بھی دھورندھر پر ملے جلے تاثرات سامنے آئے ہیں۔

کئی دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی تبادلے محدود رہے ہیں اور سنیما اکثر اس کشیدگی کا سب سے بڑا شکار بنتا رہا ہے۔

پاکستان نے 2019 میں انڈین فلموں کی نمائش پر پابندی عائد کی تھی جبکہ انڈیا میں بھی پاکستانی فلموں اور موسیقی کو اکثر روکا جاتا رہا ہے۔

اس کے باوجود بالی ووڈ فلمیں پاکستان میں بے حد مقبول ہیں اور بہت سے ناظرین وی پی این کے ذریعے یا غیر قانونی ڈاؤن لوڈنگ کے ذریعے انڈین فلمیں دیکھتے رہے ہیں۔

دھورندھر کے معاملے میں ڈان اخبار سمیت پاکستانی اخبارات کے اداریوں نے فلم میں پاکستان کی منفی تصویر کشی پر تنقید کی اور ساتھ افسوس کا اظہار کیا کہ مقامی فلم ساز اکثر اپنی تاریخ کو خود بیان کرنے میں ناکام رہتے ہیں، جس کے باعث بالی ووڈ کو اس کہانی کی تشریح کا موقع مل جاتا ہے۔

ناقدین نے فلم میں کئی غلطیوں کی نشاندہی بھی کی ہے، مثلاً کراچی کے علاقے لیاری کو دکھانا، جو کہ جرائم پیشہ گینگز، بھتہ خوری، اغوا اور منشیات کے کاروبار میں ملوث ہونے کے حوالے سے پہچانا جاتا رہا ہے۔

تاہم فلم میں اسے انڈیا کے ساتھ سرحدی کشیدگی کا حصہ بنا دیا گیا۔

کراچی میں پرورش پانے والے کنٹینٹ کریئیٹر بلال حسین نے کہا کہ وہ حیران تھے کہ فلم میں یوں لیاری گینگ کو دکھایا گیا لیکن انھوں نے یہ بھی کہا کہ فلم میں موجود ایکشن، اداکاری اور موسیقی کو اس کے ’پروپیگنڈا‘ کے باوجود سراہا جا سکتا ہے۔

سب سے سخت تنقید سندھ میں حکومت کرنے والی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی طرف سے سامنے آئی۔

فلم میں پی پی پی کا جلسہ دکھایا گیا تھا، جس میں پارٹی کے جھنڈے اور 2007 میں قتل کی جانے والی سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کی تصاویر شامل تھیں۔

ایک پارٹی رہنما نے فلم کو ’بد نیتی پر مبنی توڑ مروڑ‘ قرار دیا جس کا مقصد پی پی پی کو شدت پسندوں کا ہمدرد دکھانا تھا۔

غلطیوں کے باوجود تجزیہ کار متفق ہیں کہ یہ فلم، پچھلی کئی فلموں کی طرح، پاکستان میں بالی ووڈ کی مقبولیت کو کم نہیں کرے گی کیونکہ پاکستان میں اس معیار کی مقامی فلم انڈسٹری موجود نہیں۔

انڈیا میں بھی کچھ ایسا ہی ردِعمل دیکھا گیا جہاں بہت سے ناظرین فلم کے سیاسی مباحث کو نظر انداز کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انھوں نے اسے صرف تفریح کے لیے دیکھا۔

آدے بھاٹیا کے مطابق ’ان سب کے باوجود آخر میں یہ ایک فکشن فلم ہے اور جو چاہے دکھا سکتی ہے۔ لیکن اس کا نقطۂ نظر واضح طور پرجھکاؤ دکھائی دیتا ہے جسے فلم بہت مہارت سے آگے بڑھاتی ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US