حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کا اہم معاہدہ تو ہو گیا، لیکن کیا جنگ بھی ختم ہو گی؟

غزہ میں جنگ بندی اور امن کی جانب بڑھنے کی اس حالیہ پیش رفت میں بنیادی فرق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت ہے جنھوں نے نہ صرف حماس بلکہ اسرائیل پر بھی دباؤ ڈالا ہے۔ وہ ایک ایسےشخص ہیں جو نہ صرف اپنی پہچان جنگیں بند ختم کروانا کے حوالے سے کروانا چاہتے ہیںبلکہ اس کے عوض انعام بھی لینا چاہتے ہیں،یہ اُن کے لیے بڑی سفارتی کامیابی ہے۔
Palestinians celebrate on a street following the news that Israel and Hamas have agreed on Wednesday to the first phase of U.S. President Donald Trump's plan for Gaza, in Khan Younis in the southern Gaza Strip, in this screengrab obtained from a video released on October 9, 2025.
Reuters
حماس اسرائیل کے معاہدے کے اعلان پر غزہ میں فلسطینیوں عوام نے آدھی رات جشن جشن منایا

مصر میں ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جس کے بعد غزہ میں دو سال سے جاری جنگ اپنے خاتمے کے قریب ہے۔

اگرچے اس معاملے میں خاصی پیش رفت ہوئی ہے لیکن پھر بھی کیا واقعی جنگ ختم ہو جائے گی اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے۔

غزہ میں جنگ بندی اور امن کی جانب بڑھنے کی اس حالیہ پیش رفت میں بنیادی فرق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مداخلت ہے جنھوں نے نہ صرف حماس بلکہ اسرائیل پر بھی دباؤ ڈالا ہے۔ وہ ایک ایسےشخص ہیں جو نہ صرف اپنی پہچان جنگیں بند ختم کروانا کے حوالے سے کروانا چاہتے ہیںبلکہ اس کے عوض انعام بھی لینا چاہتے ہیں،یہ اُن کے لیے بڑی سفارتی کامیابی ہے۔

اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے جواب میں غزہ پر جنگ مسلط کی تھی۔

حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے اور حماس نے 251 اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا۔ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 67 ہزار فلسطینی شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے 18 ہزار بچے بھی شامل ہے۔

اس جنگ میں غزہ کا بیشتر علاقہ تباہ ہو گیا ہے اور ایک تباہ کن انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔

صدر ٹرمپ
Getty Images
صدر ٹرمپ برملا طور پر امن کے لیے نوبیل پیس پرائز لینے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں

آج جن اُمور پر اتفاق ہوا ہے وہ واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے اعلان کردہ غزہ امن منصوبے کا پہلا حصہ ہے۔ وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اس تقریب میں اسرائیلی وزیراعظم بھی صدر ٹرمپ کے ہمرار تھے۔ نتن یاہو پر الزام ہے کہ انھوں نے ماضی میں امن کے لیے کی گئی کوششوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

اطلاعات کے مطابق اس بار صدر ٹرمپ نتن یاہو سے ناراض ہیں اور اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے۔بظاہر اسرائیل پر اثرانداز ہونے کی جو طاقت امریکیوں کے پاس ہے، ایسے میں اسرائیلی وزیراعظم کے پاس امن عمل میں شامل ہونے کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ’مکمل خاتمے‘ کی دھمکی سے حماس بھی شدید دباؤ میں ہے۔ عرب اور دیگر مسلم ممالک نے صدرٹرمپ کے منصوبے کو تسلیم کیا اور مذاکرات میں مصر، قطر اور ترکی نے بھرپور کردار ادا کیا۔

اس حالیہ معاہدے کی تفصیلات ابھی جاری نہیں کی گئی ہیں لیکن اس کے تحت تمام یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا جن میں 20 یرغمالیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ تمام زندہ بچ جانے والے یرغمالیوں کو ایک ساتھ ممکنہ طورپر اتوار تک رہا کر دیا جائے گا جبکہ ہلاک ہونے والے 28 یرغمالیوں کی باقیات مرحلہ وار واپس کی جائیں گی۔

معاہدے کے تحت اسرائیلی جیلوں میں قید سینکڑوں فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا اور اسرائیلی افواج غزہ کے کچھ علاقے سے انخلا کریں گی اورعلاقے میں انسانی امداد کی ترسیل بڑھائی جائے گی۔

صدر ٹرمپ برملا طور پر امن کے لیے نوبیل پیس پرائز لینے کی خواہش ظاہر کر چکے ہیں، جس کا اعلانجمعے کو کیا جائے گا اس لیے مذاکرات کے لیے یہی ڈیڈ لائن تھی۔

سوشل میڈیا پر ٹرمپ نے اپنا روایتیانداز اپناتے ہوئے ایسے ’تاریخی اور غیر مثالی‘ واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک پائیدار دیرپا امن کی جانب پہلا قدم‘ ہے۔

یہ بلاشبہ ایک اہم لمحہ ہے لیکن یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ غزہ امن معاہدہ مکمل ہو جائے گا کیونکہ اہم تفصیلات پر ابھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ جیسے اسرائیل کا اہم ترین مطالبہ حماس کو غیر مسلح کرنا، یا پھر کس حد تک اسرائیلی افواج انخلا کریں گی اور غزہ میں کس کی حکومت ہو گی۔

حماس اسرائیل کے معاہدے کے اعلان پر غزہ میں فلسطینیوں عوام نے آدھی رات جشن جشن منایا اور اس اُمید کااظہار کیا کہ اُن کی مشکلات ختم ہوں گی۔ ادھر تل ابیب میں عوامیرغمالیوں کے لیے مختص چوک پر جمع ہوئے۔

غزہ
Getty Images
حماس نے یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل کی جانب سے لڑائی دوبارہ نہ شروع کرنے کی ضمانت مانگی ہے

حماس جانتی ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کے بعد مذاکرات میں اُن کا پلڑا ہلکا ہو جائے گا۔ اسی لیے انھوں نے یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل کی جانب سے لڑائی دوبارہ نہ شروع کرنے کی ضمانت مانگی ہے۔

شکوک و شبہات کی کئی وجوہات ہیں۔ مارچ میں اسرائیل نے جنگ بندی ختم کی اور مہلکفضائی حملے شروع کر دیے۔

دوسری جانب اسرائیل میں بھی عوام تنازعات سے تنگ آ گئے ہیں۔ سروے اور پولز کے مطابق عوام کی اکثریت جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے۔

لیکن نتن یاہو کو اب بھی سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔ ان کی حکومت انتہائی قوم پرست افراد کی حمایت سے چل رہی ہے اور انھوں نے معاہدہ ہونے پر اتحاد چھوڑنے کی دھمکی دی ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ اس جنگ کو طول دینے پر مجبور ہیں۔

انھوں نے حماس کے خلاف ’مکمل فتح‘ حاصل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور کوئی ایسا معاہدہ چاہتے ہیں جس کے تحت وہ یہ کہہ سکیں کہ انھوں نے یہ سب کر دیا ہے۔

نین یاہوں نے اس اعلان کو ’اسرائیلی ریاست کی قومی، اخلاقی اور سفارتی کامیابی‘ قرار دیا ہے لیکن حماس سمیت کسی نے بیان میں یہ نہیں کہا کہ جنگ ختم ہو گئی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US