جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی توثیق کے بعد غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلا شروع

مقامی آبادی نے غزہ میں بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا ہے کہ فوجی غزہ شہر کے شمال مغربی مضافات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور مشرق کی طرف چلے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج
AFP
اسرائیلی فوج مقامی وقت کے مطابق جمعے کی دوپہر دو بجے تک معاہدے میں طے شدہ مقام تک پیچھے ہٹ جائے گی

غزہ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے کچھ علاقوں سے انخلا کا عمل شروع کر دیا ہے۔

مقامی آبادی نے غزہ میں بی بی سی کے نامہ نگار کو بتایا ہے کہ فوجی غزہ شہر کے شمال مغربی مضافات سے پیچھے ہٹ گئے ہیں اور مشرق کی طرف چلے گئے ہیں۔

اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر کے ترجمان نے کہا ہے کہ فوجی دستے اس حد تک واپس چلے جائیں گے جہاں سے اسرائیلی فوج کا غزہ کی پٹی پر 53 فیصد کنٹرول رہے گا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ اسرائیلی فوجی دستے ’متفقہ‘ لائن پر واپس چلے جائیں گے۔

گذشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس نے ایک نقشہ جاری کیا تھا جس میں زرد رنگ کی لکیر سے اسرائیلی افواج کے ابتدائی انخلا کی پوزیشن کو دکھایا گیا تھا۔ صدر ٹرمپ نے اس وقت کہا تھا کہ یہاں تک انخلا تین مراحل میں سے پہلا مرحلہ ہو گا۔

اسرائیلی فوج کے ریڈیو کے ایک رپورٹر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا ہے کہ اندازہ ہے کہ اسرائیلی فوجی مقامی وقت کے مطابق جمعے کی دوپہر دو بجے تک معاہدے میں طے شدہ مقام پر ہوں گے۔

رپورٹر ڈورون کدوش نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار جب فوجی ان پوزیشنوں پر پہنچ جائیں گے تو حماس کے پاس یرغمالیوں کو واپس کرنے کے لیے 72 گھنٹے کا وقت ہو گا۔

اس سے قبل اسرائیلی حکومت نے ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ امن منصوبے کے پہلے مرحلے پر عملدرآمد کی تجویز کی منظوری دی جس میں حماس اور اسرائیل کے درمیان یرغمالیوں، قیدیوں اور زیر حراست افراد کا تبادلہ اور غزہ میں جنگ بندی شامل ہے۔

گذشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس نے ایک نقشہ جاری کیا تھا جس میں زرد رنگ کی لکیر سے اسرائیلی افواج کے ابتدائی انخلا کی پوزیشن کو دکھایا گیا تھا
BBC
گذشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس نے ایک نقشہ جاری کیا تھا جس میں زرد رنگ کی لکیر سے اسرائیلی افواج کے ابتدائی انخلا کی پوزیشن کو دکھایا گیا تھا

خیال رہے کہ مصر میں ہونے والے طویل مذاکرات کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور قیدیوں کی رہائی کا معاہدہ طے پایاتھا جس کے بعد غزہ میں دو سال سے جاری جنگ اپنے خاتمے کے قریب ہے۔

اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے جواب میں غزہ پر جنگ مسلط کی تھی۔

حماس کے حملے میں 1200 افراد ہلاک ہوئے اور حماس نے 251 اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنایا۔ اسرائیل کی جوابی کارروائی میں 67 ہزار فلسطینی شہری ہلاک ہوئے ہیں، جن میں سے 18 ہزار بچے بھی شامل ہے۔

طے پانے والے معاہدے کے تحت اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد حماس کو 72 گھنٹے میں ان تمام 20 یرغمالیوں کو رہا کرنا ہوگا جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ اس کے بعد 28 ہلاک ہونے والے یرغمالیوں کی لاشیں واپس کی جائیں گی، حالانکہ یہ واضح نہیں ہے کہ اس میں کتنا وقت لگ سکتا ہے۔

امریکی صدر نے اعلان کیا ہے کہ وہ توقع کرتے ہیں کہ غزہ میں قید تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو آئندہ پیر یا منگل تک رہا کر دیا جائے گا۔

غزہ کی پٹی میں حماس کے سربراہ اور مذاکراتی وفد کے سربراہ خلیل الحیہ کہا ہے کہ اس کے بعد اسرائیل اپنی جیلوں میں عمرقید کی سزا پانے والے تقریباً 250 فلسطینی قیدیوں اور غزہ کے 1700 قیدیوں کو رہا کرے گا۔ ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق اسرائیل ہر اسرائیلی یرغمال کی باقیات کے بدلے غزہ کے 15 لوگوں کی لاشیں بھی واپس کرے گا۔

اس کے علاوہ معاہدے کے تحت امداد لے جانے والے سینکڑوں ٹرک غزہ میں داخل ہوں گے، جہاں اقوام متحدہ کے حمایت یافتہ ماہرین نے اگست میں قحط کی تصدیق کی تھی۔ یاد رہے کہ اس جنگ میں غزہ کا بیشتر علاقہ تباہ ہو گیا ہے اور ایک تباہ کن انسانی بحران نے جنم لیا ہے۔

ادھر عالمی امدادی ادارے ریڈ کراس کا کہنا ہے کہ وہ ’یرغمالیوں اور قیدیوں کو ان کے اہل خانہ تک واپس بھیجنے کے عمل‘ میں مدد دے کر اس معاہدے کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہے۔

ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ، اسرائیل اور مغربی کنارے میں اس کی ٹیمیں انسانی باقیات کی واپسی میں بھی مدد کے لیے تیار ہیں تاکہ اہل خانہ اپنے پیاروں کی تدفین کر سکیں۔

عالمی ادارے کا مزید کہنا ہے کہ وہ غزہ میں امداد کی فراہمی اور اس کی تقسیم کرے گا۔

ادارے کے صدر مرجانا سپولجیرک نے کہا کہ ’آنے والے دن نازک ہیں۔ میں فریقین پر زور دیتا ہوں کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں۔ یہ معاہدہ زندگیاں بچانے اور مصائب کو کم کرنے کا ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔‘

خیال رہے کہ آئی سی آر سی نے ماضی میں اسرائیل اور حماس کے مابین یرغمالیوں کے تبادلے کو آسان بنانے میں مدد دی ہے۔

’انھوں نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے‘

غزہ
Getty Images
حماس نے یرغمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل کی جانب سے لڑائی دوبارہ نہ شروع کرنے کی ضمانت مانگی ہے

غزہ کے لیے بی بی سی کے نامہ نگار رشدی ابوالوف کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے انخلا کے بعد شمالی اور مغربی غزہ کے رہائشی وہاں ہونے والی تباہی دیکھ کر حیران و پریشان دکھائی دیتے ہیں۔

نامہ نگار کے مطابق اسرائیلی فوجیوں کی واپسی کے بعد کئی ہفتوں میں پہلی بار، لوگ شیخ رضوان، الکرامہ اور بیچ کیمپ کے علاقوں میں داخل ہوئے تو انھیں رہائشی بلاکس زمیں بوس دکھائی دیے اور وہاں سینکڑوں مکانات اور علاقے کا زیادہ تر انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی درجنوں ویڈیوز میں رہائشیوں کو ملبے کے درمیان سے گزرتے ہوئے دکھایا گیا ہے اور اپنے آس پڑوس کی باقی ماندہ چیزوں کی عکس بندی کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ایک کلپ میں، ایک شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے ’یہ آخری علاقہ ہے جہاں ہم پہنچ سکتے ہیں۔ اسرائیلی فوج اب بھی قریب ہی موجود ہے۔ تباہی تو دیکھیں، انھوں نے سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔‘

جہاں کچھ رہائشی کھنڈرات کی عکس بندی میں مصروف تھے تو کچھ ملبے کے نیچے سے لاشیں نکالنے میں مصروف شہری دفاع کی ٹیموں کی مدد کرتے دکھائی دیے۔

ترجمان محمود باسل نے بی بی سی کو بتایا کہ جمعے کی صبح شمالی غزہ سے آٹھ لاشیں نکالی گئیں جبکہ امدادی ٹیمیں دیگر علاقوں میں ’انتہائی محدود ذرائع‘ کے باوجود تلاش کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اسرائیلی افواج کی طرف سے خالی کیے گئے دیگر متعدد اضلاع میں بھی اسی طرح کے مناظر سامنے آئے ہیں

غزہ شہر اور شمال سے تقریبا 700،000 بےگھر افراد اب بے چینی سے انخلا کا عمل مکمل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے گھروں میں واپس جا سکیں۔

تین ہفتے قبل اپنی بیوی اور چھ بچوں کے ساتھ خان یونس فرار ہونے والے ایک استاد علاء صالح نے بی بی سی کو بتایا کہ ساحلی سڑک کھلنے کے بعد وہ شمال کی طرف لوٹنے کے لیے بے تاب ہیں: ’میرا گھر ایک سال پہلے تباہ ہو گیا تھا۔ میں کھنڈرات پر ایک خیمے میں رہ رہا تھا ، اور میں واپس جاؤں گا اور اپنا خیمہ دوبارہ لگا دوں گا۔

’ہم صرف تعمیرِ نو چاہتے ہیں۔ ہم خیموں میں رہ کر تھک چکے ہیں جو ہمیں نہ تو گرمیوں کی گرمی اور نہ ہی سردیوں کی سردی سے بچاتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US