حماس ’دنیا میں طویل ترین قید کی سزا پانے والے‘ عبداللہ برغوثی سمیت کن سرکردہ رہنماؤں کی اسرائیلی جیلوں سے رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے؟

بی بی سی کے غزہ کے نامہ نگار عدنان البرش بتاتے ہیں کہ حماس طویل سزاؤں والے 280 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی تھی لیکن ٹرمپ کے منصوبے کے تحت ان میں سے صرف 250 کو رہا کیا جائے گا۔
فلسطینی رہنما
Getty Images
(دائیں سے بائیں) مروان برغوثی، ابراہیم حمید اور عبداللہ برغوثی

ایک فلسطینی ذریعے نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ حماس کو ابھی تک اُن فلسطینی قیدیوں کی حتمی فہرست موصول نہیں ہوئی ہے جنھیں اسرائیل یرغمالی اسرائیلی شہریوں کے بدلے رہا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے عمل میں التوا کا تعلق ’اسرائیل کے اندر موجود اُس دباؤ‘ سے بھی ہے جس کے تحت حماس کے چند رہنماؤں کی رہائی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے کو ’گھنٹوں میں حل کرنے کی‘ کوششیں جاری ہیں۔

دوسری جانب حماس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی تنظیم نے ثالثوں کو فلسطینی قیدیوں کی جو فہرست پیش کی ہے اس میں متعدد اہم شخصیات بھی شامل ہیں جنھیں اسرائیلی عدالتوں کی طرف سے ایک سے زیادہ مرتبہ عمر قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں۔

اگر غزہ امن معاہدے کا پہلا مرحلہ مکمل ہو جاتا ہے تو توقع ہے کہ حماس غزہ میں موجود تمام 47 اسرائیلی یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کر دے گی، جب کہ اس کے بدلے اسرائیل غزہ جنگ کے آغاز سے اب تک گرفتار کیے گئے 250 فلسطینی قیدیوں، زیر حراست افراد اور 1700 غزہ کے باشندوں کو رہا کرے گا۔

مگر وہ کون سے فلسطینی رہنما ہیں جن کی رہائی کا حماس مطالبہ کر رہی ہے؟

بی بی سی کے غزہ کے نامہ نگار عدنان البرش بتاتے ہیں کہ حماس اسرائیلی عدالتوں سے طویل سزائیں پانے والے 280 فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہی تھی لیکن ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے تحت ان میں سے صرف 250 کو رہا کیا جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ حماس جن افراد کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے اُن میں فلسطینی جماعت ’فتح‘ کے رہنما مروان برغوثی، حماس کے رہنما عبداللہ برغوثی، ابراہیم حمید، حسن سلامہ، عباس السید اور پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین کے سیکریٹری جنرل احمد سعادت شامل ہیں۔

مگر ہم ان شخصیات کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

عبداللہ برغوثی

عبداللہ برغوثی
Getty Images

عبداللہ غالب برغوثی اپنے عرفی نام ’حماس انجینیئر‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ انھیں 67 مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی اور اس طرح وہ دنیا میں سب سے طویل قید کی سزا پانے والی شخصیت ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینیئر ہیں اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ دھماکہ خیز مواد کے ماہر ہیں۔ اُن کی عمر لگ بھگ 53 سال ہے۔

اسرائیل کے ’چینل 12‘ کے مطابق عبداللہ برغوثی کو سنہ 1996 میں قتل ہونے والے حماس رہنما یحییٰ عیاش کے بعد تنظیم کا سب سے سینیئر دھماکہ خیز مواد کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔

اسرائیل نے سنہ 2003 میں عبداللہ برغوثی کو گرفتار کیا تھا۔ ان کو سنہ 2001 میں یروشلم میں سبارو ریستوران پر ہونے والے بم دھماکے سمیت دیگر متعدد حملوں میں ملوث ہونے کا مجرم ٹھہرایا گیا۔ ان حملوں میں 15 اسرائیلی ہلاک اور 130 زخمی ہوئے تھے۔

وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں فتح تحریک کے سابق رہنما مروان برغوثی کے رشتہ دار ہیں۔

عبداللہ برغوثی کو سنہ 2002 کے کیفے موومنٹ بم دھماکے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا، جس میں 11 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان پر ایک الزام تھا عبرانی یونیورسٹی میں ہونے والے بم دھماکے کا بھی، جس واقعے میں پانچ امریکی شہریوں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق وہ کل 66 اسرائیلیوں کی ہلاکت کا بھی ذمہ دار ہے۔

فلسطینی قیدیوں کے کلب کے مطابق عبداللہ برغوثی کو کئی ماہ تک سخت اور طویل پوچھ گچھ کا نشانہ بنایا گیا اور کئی سالوں تک مسلسل قید تنہائی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

تصور کیا جاتا ہے کہ انھیں تاریخ کی سب سے طویل سزا سنائی گئی ہے۔

اپنی قید کے دوران عبداللہ برغوثی کئی کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے، جن میں سے ایک ’پرنس آف شیڈوز۔۔ انجینیئر آن دی روڈ‘ تھی، جس میں انھوں نے اپنی زندگی کی کہانی اور ’اسرائیل کے خلاف اپنی جدوجہد‘ کا ذکر کیا۔

مروان برغوثی

مروان برغوثی
Getty Images

مروان برغوثی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز پندرہ سال کی عمر میں فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی قیادت میں فتح تحریک سے کیا تھا۔

مروان برغوثی نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کے ذریعے ’فلسطینی کاز اور دو ریاستی حل‘ کی حمایت جاری رکھی۔

مروان برغوثی کو سنہ 2002 میں اسرائیل کے آپریشن ’ڈیفنس شیلڈ‘ کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا۔ اسرائیل نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ’الاقصیٰ شہدا بریگیڈز‘ کے قیام کے ذمہ دار ہیں۔ برغوثی نے اس الزام کی تردید کی تھی۔

دوسری انتفاضہ کے دوران ابھرنے والی الاقصیٰ بریگیڈز نے اسرائیلی فوج اور یہودی آباد کاروں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ برغوثی پر الزام ہے کہ انھوں نے اسرائیل کے اندر شہریوں کو نشانہ بنانے کی کارروائیاں بھی کیں۔

قابل ذکر یہ ہے کہ الاقصیٰ بریگیڈ کا سنہ 2007 سے فتح تحریک سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مروان برغوثی کو حملوں کی مبینہ ذمہ داری پر 40 سال قید کی سزا کے علاوہ پانچ مرتبہ عمر قید کی سزا سُنائی گئی۔

فلسطینی رہنما نے اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران اسرائیلی عدالت کے اختیار کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے خلاف عائد تمام تر الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔

ان کی اہلیہ فدوا نے بی بی سی عربی کو بتایا کہ ’اُن (برغوثی) کے خلاف الزامات اس لیے نہیں لگائے گئے کہ انھوں نے یہ سب کارروائیاں خود کی ہیں، بلکہ یہ سب اس وجہ سے تھا کہ وہ ایک فلسطینی رہنما تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران مروان برغوثی نے ’اپنے خلاف تمام الزامات سے انکار کیا اور انھوں نے الاقصیٰ شہدا بریگیڈز کی بنیاد رکھنے کے الزام سے انکار کیا۔‘

سیاستدانوں کا خیال ہے کہ اگر کوئی معاہدہ طے پا جائے تو مروان برغوثی فلسطینی اتھارٹی کو سنبھالنے اور مستقبل کی ریاست کی تیاری کے لیے ایک ’مشترکہ آپشن‘ ہو سکتے ہیں۔

ابراہیم حمید

ابراہیم حمید
Getty Images

ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ابراہیم حامد کو اس وقت اسرائیل میں ’سب سے خطرناک قیدی‘ سمجھا جاتا ہے اور عبداللہ برغوثی کے بعد وہ دنیا میں طویل ترین قید کی سزا پانے والے دوسرے شخص ہیں۔

ابراہیم پورے مقبوضہ مغربی کنارے میں حماس کے عسکری ونگ کے کمانڈر تھے اور ان پر متعدد حملوں کے ذمہ دار ہونے کا الزام تھا۔ انھیں 46 اسرائیلیوں کے قتل کا مجرم بھی ٹھہرایا گیا اور 54 مرتبہ عمرقید کی سزا سنائی گئی۔

ابراہیم حمید سنہ 1965 میں رام اللہ کے مشرق میں سلواد قصبے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی ابتدائی، مڈل اور ہائی سکول کی تعلیم قصبے کے سکولوں میں حاصل کی۔ وہ کم عمری میں ہی ’اسرائیل کا مقابلہ کرنے‘ والی تنظیموں کا حصہ بن گئے اور سنہ 2006 میں اپنی آخری گرفتاری سے قبل انھیں متعدد بار گرفتار کیا گیا تھا۔

اپنا ہائی سکول ڈپلومہ مکمل کرنے کے بعد انھوں نے برزیٹ یونیورسٹی میں داخلہ لیا، جہاں انھوں نے پولیٹیکل سائنس میں بی اے کیا۔ اس کے بعد انھوں نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، تحقیقی مراکز میں کام کیا اور ’فلسطینی کاز کی تاریخ‘ پر متعدد مطالعات اور تحقیقی مقالے شائع کیے۔

فلسطینی قیدیوں کے کلب نے نوٹ کیا کہ ’حمید کا آٹھ سال تک تعاقب کیا گیا، اس دوران ان کے خاندان کو ہر طرح کی ہراسانی اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا، اور اس کے خاندان کے تمام افراد کو گرفتار کر لیا گیا، جن میں ان کی بیوی اور دو بچے بھی شامل تھے۔‘

اُن کے مطابق ابراہیم حمید کو ’تقریباً آٹھ سال تک قید تنہائی کا سامنا کرنا پڑا۔‘

احمد سعادت

احمد سعادت
Getty Images

پاپولر فرنٹ کے سیکریٹری جنرل احمد سعادت کو سنہ 2006 میں گرفتار کیا گیا تھا اور اِس وقت وہ اسرائیلی جیل میں 30 سال قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ وہ اپنی موجودہ گرفتاری سے پہلے کم از کم سات بار گرفتار ہو چکے ہیں۔

فلسطینی قیدیوں کی تنظیم کے مطابق قید تنہائی میں اپنے تجربے کے بعد، سعادت ’ایکوز آف دی چین‘ کے عنوان سے ایک کتاب شائع کرنے میں کامیاب ہوئے، جس میں ’اسرائیلی جیلوں میں قید تنہائی کی پالیسی‘ پر روشنی ڈالی گئی تھی۔

سعادت کے چار بچے اور چار پوتے ہیں۔

سعادت سنہ 1953 میں البریح، رام اللہ گورنری میں پیدا ہوئے۔ انھیں اسرائیل نے 1976 سے 1993 کے درمیان چھ مرتبہ گرفتار کیا تھا۔

سعادت 27 اگست 2001 کو تنظیم کے سیکریٹری جنرل ابو علی مصطفیٰ کی وفات تک پاپولر فرنٹ کے عسکری ونگ کے کمانڈر تھے، جس کے بعد انھوں نے پاپولر فرنٹ کے سیکریٹری جنرل کا عہدہ سنبھالا۔

اسرائیل اُن پر متعدد کارروائیوں کا الزام لگاتا ہے جن کے نتیجے میں کئی اسرائیلی ہلاک اور زخمی ہوئے۔

سعادت کو اپنے متعدد ساتھیوں کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کی جیریکو جیل سے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔ قیدیوں سے متعلق فلسطینی تنظیم ان کی گرفتاری کو ’اغوا‘ قرار دیتی ہے۔

اسرائیلی حکومت کے سرکاری پورٹل نے اپنی ویب سائٹ پر اطلاع دی ہے کہ ’فلسطینی اتھارٹی نے 2002 میں اسرائیلی وزیر ریحاام زیوی کے قتل کے بعد پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کے پانچ کارکنوں کو گرفتار کیا اور انھیں نگرانی کے لیے رام اللہ میں مقطعہ منتقل کر دیا۔‘

اسرائیلی حکومت کی ویب سائٹ کے مطابق ’ایک بین الاقوامی معاہدے کے تحت، پانچوں قیدیوں کو جیریکو میں فلسطینی اتھارٹی کی جیل میں منتقل کیا گیا، جہاں انھیں امریکی اور برطانوی نگرانی میں رکھا گیا۔‘

حسن سلامہ

حسن سلامہ سنہ 1971 میں پیدا ہوئے اور اُن کا تعلق خان یونس سے ہے۔ وہ کم عمری میں ہی اسرائیل کے ساتھ محاذ آرائی میں شامل ہو گئے تھے اور انھیں پہلی انتفادہ کے دوران متعدد بار گرفتاری کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے زیادہ تر انتظامی حراستیں تھیں۔

فلسطینی قیدیوں کے کلب کے مطابق سلامہ اب 30 سال سے زیادہ کا عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیل حسن سلامہ پر الزام عائد کرتا ہے کہ وہ سنہ 1996 میں یحییٰ عیاش کے قتل کے بدلے میں قسام بریگیڈز کی جانب سے کی جانے والی ’ہولی ریوینج‘ کارروائیوں کے ذمہ دار تھے، ان کارروائیوں میں 46 اسرائیلی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔ اسرائیلی میڈیا کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وہ اسی سال یروشلم میں بسوں میں ہوئے بم دھماکوں کے بھی ذمہ دار تھے۔

فلسطینی قیدیوں کے کلب نے بتایا کہ حسن سلامہ کو 1996 میں ہیبرون میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انھیں اسرائیلی فورسز نے گولی مار دی جس کے بعد انھوں نے بہت سے عرصہ زیر حراست ایک اسرائیلی ہسپتال میں گزارا۔

کلب کے مطابق ان کی گرفتاری کے بعد ’انھیں ایک طویل اور سخت تفتیش اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تفتیش تقریباً چار ماہ تک جاری رہی، اور سنہ 1997 میں انھیں 48 عمر قید کی سزا سنائی گئی۔‘

اس طویل قید کے دوران ان کا خاندان صرف دو بار ان سے مل سکا ہے۔

عباس السید

فلسطین
Getty Images

عباس السید مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر تلکرم میں حماس کے عسکری ونگ کے رہنما ہیں۔

اسرائیل کے مطابق السید نے سنہ 2002 میں ’پاس اوور‘ کے موقع پر نیتنیہ کے پارک ہوٹل میں بم دھماکے کی منصوبہ بندی کی تھی جس میں 30 افراد ہلاک اور 140 زخمی ہوئے تھے۔ یہ ’دوسری انتفادہ کے دوران فلسطینیوں کا سب سے بڑا حملہ‘ بن گیا۔ خود اسرائیلی میڈیا نے بھی یہی رپورٹ کیا۔

فلسطینی قیدیوں کے کلب نے وضاحت کی کہ ’اپنی گرفتاری کے بعد عباس السید کو ایک وحشیانہ تفتیش کا سامنا کرنا پڑا جو لگاتار پانچ ماہ تک جاری رہی اور اس سے قبل اسرائیلی فورسز نے مہینوں تک ان کا تعاقب کیا۔ عدالتی سماعتوں کے بعد انھیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔‘

کلب کے مطابق ’عباس السید کو برسوں تک قید تنہائی کا نشانہ بنایا گیا اور انھوں نے اپنی حراست کے دوران خاندان سے ملنے سے انکار کیا۔ سات برس کے بعد پہلی بار اُن کی اہلیہ سے ملاقات ہو سکی تھی۔‘

عباس السید کو اسرائیلی جیلوں میں ایک متحرک قیدی سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے مکینیکل انجینیئرنگ میں ڈگری حاصل کر رکھی ہے اور اپنی گرفتاری سے قبل وہ مصنوعی تنفس کی انجینیئرنگ میں مہارت حاصل کی تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US