برطانیہ کی ایک عدالت نے ہتک عزت کے مقدمے میں پاکستان کی انٹیلجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر راشد نصیر کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے پاکستانی فوج کے سابق میجر عادل راجہ پر 50 ہزار پاؤنڈز ہرجانہ عائد کیا ہے۔
برطانیہ کی ایک عدالت نے ہتک عزت کے مقدمے میں پاکستان کی انٹیلجنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ بریگیڈیئر راشد نصیر کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے پاکستانی فوج کے سابق میجر عادل راجہ پر 50 ہزار پاؤنڈز ہرجانہ عائد کیا ہے۔
انگلینڈ اینڈ ویلز ہائی کورٹ کے کنگز بینچ ڈویژن کے جج رچرڈ سپیئرمین کا اپنے تحریری فیصلے میں یہ کہنا ہے کہ ہتک عزت کا دعویٰ درست ثابت ہونے پر عادل راجہ کی طرف سے راشد نصیر کو ہرجانے کی مد میں 50 ہزار پاؤنڈز اور قانونی اخراجات ادا کیے جائیں گے۔
بریگیڈیئر ریٹائرڈ راشد نصیر نے یوٹیوبر عادل راجہ کے نو بیانات کو ہتک آمیز قرار دیتے ہوئے اگست 2022 میں لندن کی کنگز کورٹ سے رجوع کیا تھا جس کے بعد لندن میں اس مقدمے کی سماعت ہوئی۔
عدالتی فیصلے کے مطابق عادل راجہ نے یہ بیانات اردو زبان میں 14 سے 29 جون سنہ 2022 کے دوران اپنے ٹوئٹر (ایکس)، فیس بُک اور یوٹیوب اکاؤنٹس پر جاری کیے تھے۔ اس وقت راشد نصیر پنجاب میں آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر اور ہیڈ آف انٹیلیجنس کمانڈ تھے۔
کنگز کورٹ کے جج رچرڈ سپیئرمین نے اپنے فیصلے میں کہا کہ عادل راجہ اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر راشد نصیر کیس کا خلاصہ شائع کریں اور اپنے فالورز کو یہ بتائیں کہ تمام الزامات جھوٹے اور ہتک آمیز تھے۔
جج کا کہنا ہے کہ عادل راجہ اپنے الزامات عدالت میں ثابت کرنے میں ناکام رہے اور اُن کے بیانات سے راشد نصیر کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔
عادل راجہ کے خلاف اس مقدمے میں اُس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی شہزاد اکبر، صحافی شاہین صہبائی اور ریٹائرڈ لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین عادل راجہ کے دفاع میں بطورِ گواہ عدالت میں پیش ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ میجر ریٹائرڈ عادل راجہ اور لیفٹیننٹ کرنل اکبر حسین کو پاکستان کی فوج نے کورٹ مارشل کے ذریعے فوجی اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے کے جرم میں سزا سنائی تھی۔
عدالت میں عادل راجہ نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ انھوں نے اپنے خاندان کے ہمراہ برطانیہ میں پناہ حاصل کی ہے اور وہ خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ناقدین میں سے ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ان کا ’آئی ایس آئی اور فوج میں قابل اعتماد ذرائع کا نیٹ ورک ہے۔‘
فیصلے میں لکھا گیا کہ عادل راجہ نے یہ موقف اپنایا تھا کہ ’آئی ایس آئی بیرونِ ملک دہشت گردی اور پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر دنیا بھر بدنام ہے۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کہا جو آئی ایس آئی کے بارے میں پہلے سے عالمی طور تسلیم نہیں کیا جاتا۔‘
تاحال پاکستان کی حکومت اور فوج نے عادل راجہ کے دعوؤں یا ہتک عزت کے مقدمے میں ان کے خلاف فیصلے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

برطانوی عدالت نے اپنے فیصلے میں کیا کہا؟
کنگز کورٹ کے جج نے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ عادل راجہ نے بریگیڈیئر راشد نصیر کے خلاف ایکس، یوٹیوب اور فیس بک پر ’سنگین اور جان بوجھ کر جھوٹے الزامات‘ لگائے اور وہ عدالت میں کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکے ہیں۔
عدالت کے مطابق عادل راجہ کے بیانات ’اشتعال انگیز‘ تھے اور ان کا مقصد بریگیڈیئر نصیر کی ’ساکھ کو نقصان پہنچانا تھا۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عادل راجہ نے اپنے دفاع میں اس بارے میں کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے کہ راشد نصیر کی موجودہ پاکستانی صدر اور پیپلز پارٹی کے رہنما آصف زرداری سے ملاقاتیں ’الیکشن پر اثرانداز ہونے کے لیے تھیں۔‘
بریگیڈیئر ریٹائرڈ راشد نصیر نے اپنی درخواست میں عادل راجہ کی ویڈیوز کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا کہ انتخابات میں مبینہ مداخلت کے لیے راشد نصیر نے آصف علی زرداری سے ملاقاتیں کی اور انھوں نے کسی 'رجیم چینج' میں نمایاں کردار ادا کیا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سوال یہ نہیں ہے کہ 'آئی ایس آئی الیکشن میں مداخلت میں ملوث ہے یا نہیں بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا مدعی راشد نصیر اپنے عہدے کے ذریعے انتخابات پر اثرانداز ہوئے ہیں؟' عدالت کا کہنا ہے کہ اس بارے کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کیے گئے۔
درخواست کے مطابق راشد نصیر نے کہا کہ عادل راجہ نے یہ الزام لگایا کہ بدعنوانی اور الیکشن میں اثرانداز ہونے سے وہ ارب پتی بن گئے ہیں۔
جج نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ عادل راجہ نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں مدعی پر دھوکہ باز ہونے کا الزام عائد کیا ہے لیکن جرح کے دوران اپنے دفاع میں بس یہی کہا کہ 'میرے پاس ذرائع تھے۔ میں نے کراس چیک کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ درست ہے۔' لیکن وہ عدالت کو قائل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عادل راجہ نے صحافی ارشد شریف کے قتل کا الزام آئی ایس آئی پر لگایا لیکن اس واقعے کی کسی بھی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ سامنے نہیں آیا کہ آئی ایس آئی اس میں ملوث تھی۔
عدالت نے ہتک عزت کے کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ عادل راجہ اس کیس کا خلاصہ اپنے تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر شائع کریں گے۔ عدالت نے کہا ہے کہ کیس کا خلاصہ شائع کرنے کے لیے اشاعت کا وقت، طریقہ کار، الفاظ اور جگہ کا تعین اتفاقِ رائے سے ہونا چاہیے۔
عدالت کا کہنا ہے کہ اگر الفاظ اور دیگر چیزوں پر فریقین کے مابین اتفاق نہیں ہوتا تو پھر عدالت اس کا تعین کرے گی۔
دریں اثنا برطانوی عدالت کے فیصلے میں عادل راجہ کے گواہان کے بیانات کا بھی ذکر ہے۔
فیصلے میں جج نے لکھا کہ ان کی رائے میں شاہین صہبائی نے الیکشن میں مداخلت کے خطرے کا اظہار کیا تاہم انھوں نے ہتک عزت کے دعویدار (راشد نصیر) کے بارے میں یہ تاثر نہیں دیا کہ انھوں نے لاہور ہائیکورٹ کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔
فیصلے کے مطابق شاہین صہبائی نے کہا کہ ’مذکورہ ملاقاتیں ہوئیں یا نہیں یہ نہیں کہا جا سکتا لیکن الیکشن میں مداخلت اب عام معلومات ہے۔‘ فیصلے کے مطابق شاہین صہبائی نے ایسے کوئی شواہد نہیں دیے جو مدعی علیہ کی مدد کریں۔
اس کے علاوہ عادل راجہ کے گواہان میں سے ایک مرزا شہزاد اکبر نے عدالت کو بتایا کہ انھیں یقین ہے کہ عمران خان اور ان کے خاندان اور دوستوں کے خلاف زیادہ تر تحریریں راشد نصیر کے دفتر نے میڈیا میں لگوائیں تاہم جج کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مدعی علیہ اپنے دیے گئے بیانات سے قبل اس دعوے سے واقف تھے۔
جج کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ کسی فرد کے خلاف الزام عائد کرنے کی بنیاد قائم کرنے کی بجائے ایک صحافی کے تجزیے کو اہمیت دی گئی ہے۔
عدالتی فیصلے میں راشد نصیر کا وہ بیان بھی درج ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے آصف علی زرداری کے لاہور میں قیام کے دوران ان سے ملاقات نہیں کی اور یقینی طور پر ان سے انتخابی مداخلت پر بات نہیں کی۔‘
پاکستان کی فوج سے وابستہ رہنے والے راشد نصیر اور عادل راجہ کون ہیں؟
عادل راجہ پاکستان کی فوج میں میجر رینک کے آفسر تھے۔ یوٹیوبر اور وی لاگر میجر ریٹائرڈ عادل فاروق راجہ کو تحریک انصاف کا حامی سمجھا جاتا تھا۔ وہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے 10 روز بعد پاکستان سے برطانیہ چلے گئے تھے۔
پاکستان کی فوج نے نومبر 2023 میں میجر ریٹائرڈ عادل راجہ کا کورٹ مارشل کرتے ہوئے انھیں 14 سال قید با مشقت اور عہدہ ضبط کرنے کی سزا سنائی تھی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق میجر (ر) عادل فاروق راجہ کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت 'حاضر سروس اہلکاروں کو بغاوت پر اکسانے' پر فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت سزا سنائی گئی۔
ائی ایس پی آر نے کہا تھا کہ عادل راجہ کو آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کی دفعات کی خلاف ورزی، ریاست کے تحفظ اور مفاد کے خلاف منفی سرگرمیوں ملوث سرگرمیوں کا مرتکب پایا گیا ہے۔ اکتوبر 2023 کو عدالتی کارروائی کے انھیں سزا سنائی گئی جبکہ ان کے رینکس بھی ضبط کر لیے گئے۔
اس سے قبلعادل راجہ کے خلاف اسلام آباد کے تھانے میں لوگوں کو فوج اور حکومت کے خلاف اکسانے کے مقدمات بھی درج ہیں اور انھیں اشتہاری قرار دینے سے متعلق ضابطے کی کارروائی جاری ہے۔
بریگیڈیر ریٹائرڈ راشد نصیر پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے وابستہ تھے۔