نوبیل امن انعام کی جتنی باتیں اس بار ہوئی ہیں اس سے قبل کبھی بھی نہیں ہوئی تھیں کیونکہ پہلی بار ایسا دیکھا گیا کہ کسی نے خود سے نوبیل انعام کا حقدار ہونے کا ایک بار نہیں بلکہ معتدد بار دعوی کیا اور یہی نہیں پاکستان اور اسرائیل سمیت کئی ممالک کے سربراہان نے ان کے دعوے کی تاعید بھی کی اور انھیں حقدار بھی قرار دیا۔
نوبیل انعام کے اعلان کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ انھوں نے لاکھوں جانیں بچائی ہیںنوبیل امن انعام کی جتنی باتیں اس بار ہوئی ہیں اس سے قبل کبھی بھی نہیں ہوئی تھیں کیونکہ پہلی بار ایسا دیکھا گیا کہ کسی نے خود سے نوبیل انعام کا حقدار ہونے کا ایک بار نہیں بلکہ متعدد بار دعویٰ کیا اور یہی نہیں پاکستان اور اسرائیل سمیت کئی ممالک کے سربراہان نے ان کے دعوے کی تائید بھی کی اور انھیں حقدار بھی قرار دیا۔
لیکن گذشتہ روز جب نوبیل انعام کا اعلان ہوا تو اس کی سب سے زیادہ امید کرنے والے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سے محروم رہ گئے اور یہ انعام وینزویلا میں آمریت کے خلاف لڑنے والی خاتون مرِیا کورینا مَچاڈو دے دیا گیا۔
لیکن ستم ظریفی تو دیکھیے کہ کورینا مَچاڈو نے اس انعام کو وینزویلا کے عوام کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ کے نام بھی منسوب کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جہاں پہلے سے بہت سارے میمز شیئر کیے جارہے تھے وہیں انعام کے اعلان کے بعد اس میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
بہر حال جب نوبیل امن انعام کا اعلان کیا گیا تو کسی صحافی نے بہت ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سوال پوچھ لیا کہ آخر امریکی صدر کو یہ انعام کیوں نہیں دیا گیا اور یہ کہ انعام دینے والی کمیٹی پر کتنا دباؤ تھا جب امریکہ اور بین الاقوامی سطح پر ان کے لیے ایک طرح سے مہم چلائی جا رہی تھی۔
مچاڈو کو اپنے ملک میں جمہوریت کی بحالی کی کوششوں کے لیے امن کا نوبیل انعام دیا گيا ہےاس کے جواب میں کمیٹی کے چیئرمین فریڈنس نے کہا کہ نوبیل امن انعام کی طویل تاریخ کے دوران، کمیٹی نے مہم اور ’میڈیا کی توجہ‘ کا مشاہدہ کیا ہے اور یہ کہ اسے ہر سال لوگوں سے ہزاروں ایسے خطوط موصول ہوتے ہیں جن میں وہ اپنے خیال کا اظہار کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا: ’ہم اپنے فیصلے کام کی بنیاد اور الفریڈ نوبیل کی وصیت کے مطابق کرتے ہیں۔‘
لیکن اگر ڈونلڈ ٹرمپ یہ جاننا چاہیں کہ اس کمیٹی کے دروازے کے پیچھے کیا ہوا، تو ان کے لیے مسئلہ ہوگا کیونکہ کاغذات 50 سال کے لیے خفیہ رکھے جاتے ہیں۔
جب ایک صحافی نے نوبیل امن انعام کمیٹی کے چیئرمین سے پوچھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ انعام کیوں نہیں دیا گیا، تو چیئرمین نے جواب دیا: ’یہ کمیٹی ایک ایسے کمرے میں بیٹھتی ہے جس کی دیواروں پر تمام نوبیل انعام پانے والوں کی تصاویر ہیں اور وہ کمرہ حوصلے اور دیانت سے بھرا ہوا ہے۔ لہٰذا ہم صرف الفریڈ نوبیل کی خواہش اور ان کے اصولوں کی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں۔‘
مرینا مچاڈو کے ٹویٹ کے جواب میں معروف صحافی مہدی حسن نے لکھا کہ مرینا مچاڈو کتنی ذہین خاتون ہیں۔ انھوں نے اپنا نوبیل امن انعام ٹرمپ کو وقف کیا ہے۔ ہر غیر ملکی حکومت، گروہ، سیاست دان جانتا ہے کہ ٹرمپ اور ان کی انا سے کس طرح ڈیل کرنا ہے اور کس طرح سے ان کے ساتھ جوڑ توڑ کرنا ہے۔ وہ خود کو کتنا سادہ لوح اور واضح رکھتے ہیں۔
امریکہ میں معروف ٹی وی شو کرنے والے جیمی کیمل نے تو امریکی صدر کا نوبیل انعام کی خواہش کے متعلق ایک پورا مونتاج بنا دیا ہے۔
بہت سے صارفین ان کے شو کے کلپس شیئر کر رہے ہیں۔
دریں اثنا وائٹ ہاؤس نے نوبیل کمیٹی پر الزام لگایا ہے کہ اس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے وینزویلا کی جمہوریت حامی کارکن کو اپنا سب سے گرانقدر انعام دینے کے لیے ’امن پر سیاست‘ کی ہے۔
ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سمیت کئی مواقع پر نوبیل امن انعام کے لیے اپنا دعویٰ پیش کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس کے کمیونیکیشن ڈائریکٹر سٹیون چیونگ نے جمعہ کی صبح اعلان کے بعد کہا کہ نوبیل کمیٹی نے ثابت کیا کہ وہ سیاست کو امن پر ترجیح دیتے ہیں۔
چیونگ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: ’صدر ٹرمپ امن معاہدے کرتے رہیں گے، جنگیں ختم کریں گے اور جانیں بچائیں گے۔ ان کے پاس ایک انسان دوست دل ہے اور ان جیسا کوئی اور نہیں ہو گا جو اپنی خواہش کی طاقت سے پہاڑوں کو ہلا سکے۔‘
ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے معاہدہ کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے جس کا اعلان نوبیل امن انعام سے دو روز قبل کیا گیا تھا۔
صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ انھوں نے اپنے نو ماہ کے عہدے اور سابقہ مدت کے دوران متعدد عالمی تنازعات کا خاتمہ کیا۔
دوسری جانب وائٹ ہاؤس کے ایک سینیئر اہلکار نے بی بی سی کے امریکی میڈیا پارٹنر سی بی ایس کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے مچاڈو کو مبارکباد دینے کے لیے فون کیا اور کہا کہ وہ اس ایوارڈ کی حقدار ہیں۔
بہر حال سنیئر سینیٹر کے برعکس صدر ٹرمپ نے رات وائٹ ہاؤس میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا: ’جس شخص کو نوبل انعام ملا اس نے آج مجھے فون کیا اور کہا، ’میں یہ آپ کے اعزاز میں قبول کر رہی ہوں کیونکہ آپ واقعی اس کے حقدار ہیں‘۔۔۔ میں نے یہ نہیں کہا، ’یہ (نوبیل انعام) مجھے دے دو‘۔ مجھے لگتا ہے کہ شاید ان کا خیال ہے کہ میں ان کی (جدوجہد میں) ان کی مدد کر رہا ہوں۔۔۔ میں خوش ہوں کیونکہ میں نے لاکھوں جانیں بچائیں۔۔۔‘
چونکہ پاکستان نے نوبیل امن انعام کے لیے ٹرمپ کے نام کی تجویز پیش کی تھی اس لیے اس حوالے سے پاکستان پر بھی میمز نظر آ رہی ہیں۔ بہت سے صارف حالیہ ایشیا کپ کے فائنل کے بعد انڈیا کو ایشیا کپ نہ دیے جانے اور پی سی بی کے چیئرمین محسن نقوی کے ٹرافی لے جانے کا ذکر کرتے ہوئے ٹرمپ سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اسی طرح نوبیل انعام اپنے پاس لے آئیں۔
جب کہ ایک صارف نے کئی سربراہان مملکت کے ساتھ ٹرمپ کی تصویر پوسٹ کرکے لکھا ہے کہ انھوں نے ان عالمی رہنماؤں کے ساتھ اچھی کیمسٹری بنائی ہے اس لیے انھیں علم کیمیا کا نوبیل انعام تو ملنا چاہیے۔
اس مونتاج میں ٹرمپ کو یہ کہتے ہوئے دکھایا گيا ہے کہ ’کم از کم کیمسٹری میں تو میں نوبیل کا حقدار ہوں۔‘
2025 کا نوبیل امن انعام مریا کورینا مَچاڈو کو وینزویلا کے عوام کے جمہوری حقوق کو فروغ دینے پر دیا گیا ہے۔
انڈیا میں یہ بات کہی جا رہی ہے کہ مرِیا کورینا مَچاڈو مہاتما گاندھی کے نظریات سے متاثر ہیں اور اس حوالے سے یہ بات بھی کی جا رہی ہے کہ گاندھی جی کے نام پر بھی کئی بار غور کیا گيا لیکن انھیں یہ انعام نہیں مل سکا۔
انڈیا میں کانگریس پارٹی کے ایک پینلسٹ سریندر راجپوت نے لکھا ہے کہ راہل گاندھی بھی جمہوریت اور آئین کو بچانے کے لیے انڈیا میں جدوجہد کر رہے ہیں جس سے بعض لوگ یہ نتیجہ نکال رہے ہیں کہ راہل گاندھی بھی نوبیل امن انعام کے حقدار ہیں۔
مرینا وینزویلا میں حزب اختلاف کی رہنما ہیںمریا کورینا کون ہیں؟
مریا کورینا مچاڈو وینزویلا کی اپوزیشن لیڈر ہیں۔ انھیں گذشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا تھا، جس کی دنیا بھر میں مذمت اور تنقید کی گئی تھی کہ یہ انتخاب غیر منصفانہ تھا۔
بی بی سی کے جنوبی امریکہ کے نامہ نگار ایون ویلز نے گذشتہ سال کراکس میں ہونے والے انتخابات کا مشاہدہ کیا، جہاں ان کے امیدوار ایڈمنڈو گونزالیز نے ایک ریلی نکالی تھی جس میں سڑکوں پر بہت زیادہ ہجوم تھا۔
انھوں نے نکولس مادورو کی حکومت کو پریشانی میں ڈال دیا تھا۔ مریا مچاڈو ملکی اپوزیشن کی رہنما ہیں، جو سڑکوں پر اور پولنگ سٹیشنوں پر ہزاروں لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
پچھلے سال کے انتخابات میں پولز نے ان کی یقینی فتح کا اشارہ دیا تھا، لیکن نکولس مادورو نے تیسری بار کامیابی حاصل کی۔ تاہم، بہت سے مبصرین نے انتخاب میں بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی ہے۔
بی بی سی کے ایون ویلز نے ذاتی طور پر لوگوں کو پولنگ سٹیشن کے باہر گھنٹوں کھڑے رہنے پر مجبور دیکھا۔
انتخابی نتائج کے بعد ملک کے کئی حصوں میں مظاہرے پھوٹ پڑے تاہم انتظامیہ کی جانب سے انھیں دبا دیا گیا۔
مچاڈو کو روپوش ہونا پڑا اور ان کا ٹھکانہ فی الحال نامعلوم ہے۔ وہ جنوری میں مدورو کے افتتاح کے خلاف مظاہروں میں دیکھی گئی تھیں اور اس وقت انھیں تھوڑی دیر کے لیے گرفتار کر لیا گیا لیکن بعد میں رہا کر دیا گیا۔