14 سالہ لڑکی کی پلاسٹک سرجری کے بعد موت اور والدین کی گرفتاری جس پر میکسیکو میں نئے خدشات جنم لے رہے ہیں

20 ستمبر کو 14 برس کی پالوما کی ایک نجی کلینک میں وفات ہوئی۔ ان کے سوتیلے والد نے حکام کو اطلاع دی کہ ان کی بیٹی کی موت کاسمیٹک سرجری کے بعد ہوئی جس کی اجازت ان کی سابقہ ​​بیوی اور مرنے والی لڑکی کی ماں نے دی تھی۔

پلاسٹک سرجری سے ایک نوعمر لڑکی کی موت سے میکسیکو کے شہریوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے جبکہ نابالغوں کے علاج سے متعلق قانون سازی پر بھی تشویش میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ارکان اسمبلی نے ایسے واقعات پر قابو پانے کے لیے سخت قانون سازی کا وعدہ کیا ہے۔

20 ستمبر کو 14 برس کی پالوما نکول آریلانو ایسکوبیڈو کی درینگو ریاست کے ایک نجی کلینک میں وفات ہوئی۔

لڑکی کے بائیولاجیکل والد نے حکام کو اطلاع دی کہ ان کی بیٹی کی موت کاسمیٹک سرجری کے بعد ہوئی جس کی اجازت ان کی سابقہ ​​بیوی اور مرنے والی لڑکی کی ماں پالوما ایسکوبیڈو نے دی تھی۔

اس نوعمر لڑکی نے چھاتی کے امپلانٹ کروائے اور کولہوں میں چربی کی منتقلی کروائی تھی۔ یہ سرجری ایسکوبیڈو کے ایک پارٹنر سرجن وکٹر مینوئل روزالز نے کی۔

کارلوس آریلانو نے جارج آرویو کو دیے گئے ایک انٹرویو کے دوران بتایا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ میری بیٹی کا کیس اس طرح ختم نہ ہو۔ جن لوگوں نے میری بیٹی کے ساتھ ایسا کیا، انھیں سزا بھگتنی چاہیے۔‘

جارج آرویو ایک آن لائن چینل چلاتے ہیں اور وہ اس مقدمے کو گذشتہ ہفتے منظر عام پر لائے۔

درینگو کے اٹارنی جنرل کے دفتر نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ایسکوبیڈو اور مینوئل روزالز پر جمعے کو عدالتی سماعت میں فرد جرم عائد کی گئی۔

ماں پر اپنے غفلت اور پیشے سے متعلق ’غلط بیانی‘ کا الزام لگایا گیا ہے کیونکہ انھوں نے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں مہارت نہ ہونے کے باوجود اپنی بیٹی کی سرجری کے عمل میں حصہ لیا تھا۔ ڈاکٹر کو ’طبی خدمات میں غفلت اور اپنے کام کی درست انداز میں انجام دہی نہ کرنے‘ کے الزامات کا سامنا ہے۔

زیر حراست افراد نے اس بارے میں کوئی باقاعدہ بیان نہیں دیا ہے کہ کیا ہوا تھا۔

کیا نابالغوں کے لیے پلاسٹک سرجری خطرناک ہے؟

لیکن اس کیس نے نابالغوں کے لیے کاسمیٹک سرجری کے طریقہ کار کے بارے میں سوالات اور خدشات کو جنم دیا ہے۔

درینگو سمیت دیگر ریاستوں اور وفاقی کانگریس کے قانون سازوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایک ’نکولز لا‘ لے کر آئیں گے جس کا مقصد اس طرح کے واقعات کو روکنا اور اس مقصد کے لیے ضوابط متعارف کروانا ہے۔

میکسیکن ڈاکٹر مورو ارمینٹا ایک پلاسٹک سرجن ہیں جو بارسلونا یونیورسٹی سے ’ری کنسٹرکٹو‘ مائیکرو سرجری میں مہارت حاصل کر رہے ہیں۔ انھوں نے وضاحت کی ہے کہ پلاسٹک اور ری کنسٹرکٹو سرجریز دیگر طریقوں سے زیادہ خطرناک نہیں۔

ان کے مطابق ’اب ایسے میں کسی کا بھی معاملہ بگڑ سکتا ہے۔ اس وجہ سے ہم موت کی وجہ کا تعین کرنے میں بہت محتاط رہتے ہیں۔‘

انھوں نے خبردار کیا کہ ’بعض اوقات کسی مریض کی ایسی حالت ہو سکتی ہے جس کا آپریشن سے پہلے پتا نہیں چلتا مگر یہ صورتحال کسی بڑی پیچیدگی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔‘

انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ نوعمر افراد کے لیے اس طرح کی سرجری کی سفارش نہیں کی جاتی ہے کیونکہ ان کی جذباتی اور نفسیاتی نشوونما اب بھی تبدیلی کے مرحلے میں ہوتی ہے۔ اور یہ اس طرح کے عمل کو ان کے بڑوں کی مکمل اجازت کے ساتھ انجام دیا جانا چاہیے۔

’جب وہ نوعمر ہوتے ہیں، تو آپ کو ہمیشہ والدین دونوں کی رضامندی حاصل کرنی چاہیے اور انھیں خطرات اور فوائد سے آگاہ ہونا چاہیے۔ اس کے بعد پھر یہ سب کرنا غلط نہیں ہے کیونکہ اس کام کو انجام دینے کے لیے کوئی عمر کی حد نہیں ہے، لیکن اس پر کام کیا جانا چاہیے۔‘

سرجن جارج آررویو نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ قواعد و ضوابط پر نظر ثانی مثبت پیش رفت ہو سکتی ہے کیونکہ میکسیکو دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے جہاں پلاسٹک سرجری کی سب سے زیادہ شرح ہے۔

جارج آرویو نے بی بی سی منڈو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک مسئلہ ہے کہ کسی نے بھی اس پر مناسب غور نہیں کیا۔

’پلاسٹک سرجری کی دوسری قسمیں ہیں، جیسے ایسے بچے جو کٹے ہوئے ہونٹ اور تالو کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں یا جن میں پیدائشی طور پر ہی کوئی کمی رہ جاتی ہے اور یقیناً پھر ایسے میں ان کے لیے پلاسٹک سرجری کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

’وہ ایک بہت ہشاش بشاش لڑکی تھی‘

کارلوس آریلانو بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی بیوی سے اس وقت علیحدگی اختیار کی جب پالوما نکول چار برس کی تھیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ اس کے بعد سے وہ ان کی بھی نگرانی میں رہیں اور وہ ہمیشہ اپنی بیٹی کے ساتھ رابطے میں رہے۔

کارلوس آریلانو نے ڈاکٹر ارویو کے ساتھ انٹرویو میں مزید بتایا کہ ’وہ ایک خوش باش لڑکی تھیں۔ اپنے جسم سے خوش، اپنی مسکراہٹ سے، زندگی سے خوش۔ وہ 15 سال کی ہونے والی تھیں۔ اس کی پارٹی کے لیے سب کچھ تیار تھا۔ ان کا ایک اور خواب یورپ کا دورہ کرنا تھا، اور اس سفر کا پہلے سے ہی تیاری کر لی گئی تھی۔‘

ان کے مطابق ان کی بیٹی نے کسی موقع پر بھی کاسمیٹک سرجری کروانے کی خواہش ظاہر نہیں کی۔

وہ کم عمر لڑکی کھیلوں میں دلچسپتی رکھتی تھیں۔ گذشتہ مارچ میں انھوں نے اپنی والی بال ٹیم کے ساتھ کالج کا ایک ٹورنامنٹ جیتا تھا۔

لیکن 11 ستمبر کو ان کی سابقہ ​​بیوی نے انھیں ٹیسٹ کی رپورٹ بھیجتے ہوئے یہ خبر دی کہ پالوما نائیکول میں کورونا وائرس کی تشخص ہوئی ہے۔

انھوں نے انھں یقین دلایا کہ ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو گا کیونکہ وہ دور دراز دورنگو کے پہاڑوں میں اپنے گھر میں آرام کر رہی ہوں گی۔

کارلوس آریلانو کے مطابق ’اگلے دن اس کی کاسمیٹک سرجری ہوئی جو اس کی سابقہ ​​بیوی کے ایک ساتھی ڈاکٹر نے کی تھی۔‘

تین دن بعد، 15 ستمبر کو کارلوس آریلانو کو اطلاع ملی کہ ان کی بیٹی انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں میں تشویشناک حالت میں ہیں۔

شدید دماغی سوجن کی وجہ سے انھیں کوما کی حالت میں رکھا گیا اور اس مقصد کے لیے انھیں سانس کی نالی لگائی گئی تھی۔

کارلوس آریلانو نے کہا کہ ’میں چور چور ہو گیا تھا، میں ٹوٹ چکا تھا کیونکہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میری یہ حالت کیوں ہو گئی ہے۔‘

نوعمر لڑکی کے والد نے کہا کہ ’ڈاکٹروں نے میری بیٹی کو مکمل ڈھانپ رکھا تھا، ان کا پورا جسم ڈھانپ دیا گیا، ان کے ہر طرف تکیے رکھے گئے تھے اور ان کے اردگرد ہر کچھ ڈھانپ دیا گیا تھا۔ یہ مجھے عجیب لگا، لیکن مجھے تمام تفصیلات سے متعلق بعد میں پتا چلا۔‘

انھوں نے دیکھا کہ ان کی بیٹی نے سرجیکل برا پہن رکھی ہوئی تھی جس کا کورونا وائرس سے یا دماغ کی سوجن سے کوئی تعلق نہیں بنتا تھا۔

ڈاکٹروں نے کاسمیٹک سرجری کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ پالوما نکول کی حالت بگڑ گئی اور بالآخر 20 ستمبر کو وہ فوت ہو گئیں۔

کارلوس آریلانو کا کہنا ہے کہ ’پہلے تو انھیں یہ عجیب لگا کہ پراسیکیوٹر کے دفتر نے پوسٹ مارٹم کرنے کی کوشش کی تھی جبکہ یہ کوئی عدالتی معاملہ نہیں تھا، اس وجہ سے انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ لاش لے جائیں گے اور اپنی آخری رسومات کا خود اہتمام کریں گے۔‘

کارلوس آریلانو کے مطابق ’مجھے شکوک و شبہات تھے، لہٰذا میں نے ان کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا اور دیکھا کہ لڑکی کے امپلانٹس ہیں۔‘

چنانچہ 21 ستمبر کو انھوں نے پراسیکیوٹر کے دفتر رابطہ کر کے پوسٹ مارٹم کرنے کی درخواست کی۔

اٹارنی جنرل آفس کی سربراہ سونیا یادیرا ڈی لا گارزا کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ پالوما نائیکول میں کورونا وائرس کی تشخیص سے متعلق کیا جانا والا ٹیسٹ جعلی تھا۔

پالوما ایسکوبیڈو سے اس طبی شعبے میں آنے سے متعلق بھی تفتیش کی گئی کیونکہ انھوں نے بغیر کسی تربیت یا سرکاری رجسٹریشن لیے یہ سرجری کی تھی۔

اٹارنی جنرل نے مقامی پریس کو بتایا کہ وہ اپنی بیٹی کی سرجری لاگ میں نرسنگ میں ایک ’شریک‘ کے طور پر رجسٹرڈ تھیں۔

سرجن وکٹر مینوئل روزلز کو بدعنوانی کے الزامات کے علاوہ نوعمر لڑکی کے والد کی جگہ خود سرپرست بن کر رضامندی ظاہر کرنے والے فارم پر دستخط کرنے کی بھی فرد جرم عائد کی گئی۔

سرجن جارج آررویو بتاتے ہیں کہ میکسیکو میں مریض کی براہ راست یا بالواسطہ رشتہ دار کے ذریعے سرجری کروانے کی صلاحیت پر کوئی قانونی پابندی نہیں ہے اور نہ ہی پالوما نکول کی طرح کاسمیٹک سرجری کے لیے عمر کی کوئی کم از کم حد مقرر ہے۔

ان کے مطابق اگر یہ تربیت یافتہ ڈاکٹروں نے سرجری کی ہو تو اس ملک میں عمر کی کوئی حد نہیں مقرر نہیں ہے۔ اس وقت میکسیکو لاطینی امریکہ میں پلاسٹک سرجری کے لیے ایک معیار ہے۔‘

سرجری کے ضوابط متعارف کرانے کا مطالبہ

اپنی سابقہ ​​بیوی اور سرجن کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے علاوہ کارلوس آریلانو نے اپنی بیٹی کے لیے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے دورنگو میں مظاہروں کا اہتمام بھی کیا۔

یہ کیس میکسیکو کی صدر کلاڈیا شین بام کی ایک پریس کانفرنس میں سامنے آیا، جنھوں نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کی حکومت ضروری ’مدد‘ فراہم کرے گی۔

وفاقی کانگریس کی سینیٹر جینا کیمپوزانو گونزالیز نے نوعمر افراد پر ’خاص طور پر کاسمیٹک‘ طریقہ کار پر پابندی لگانے اور سخت طبی کنٹرول کے تحت صرف تعمیر نو کی سرجریوں کی اجازت دینے کے لیے ’نیکولز لا‘ متعارف کرایا ہے۔

دورنگو سے تعلق رکھنے والی رکن قومی اسمبلی نے کہا کہ ’اس قانون کے برعکس اب کوئی بالغ کسی اور کے بچے کے علاج سے متعلق اجازت نہیں دے سکتا یا رضامندی ظاہر نہیں کر سکتا۔ بچوں سے متعلق کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔‘ دیگر اراکین اسمبلی نے بھی اسی طرح کے اقدامات کا اعلان کیا ہے۔

ڈاکٹر ارمینٹا اس بات پر زور دیتی ہیں کہ پلاسٹک سرجری، جو پہلی اور دوسری عالمی جنگ کے درمیان شروع ہوئی تھی، نہ صرف کاسمیٹک بڑھانے والے لوگوں کی مدد کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی ظاہری شکل کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، بلکہ ان لوگوں کی بھی مدد کرتی ہے جو اپنی جسمانی شکل کی وجہ سے زخموں، بیماریوں اور یہاں تک کہ ہراساں ہوئے ہیں۔

ان کے مطابق ’ہم بہت چھوٹی عمر کے مریضوں کی بھی اوٹوپلاسٹی کرتے ہیں۔۔ یہ ایسے مریض ہوتے ہیں جن کے کان قدرے پھیلے ہوئے ہیں یا بہت بڑے کان ہوں کیونکہ وہ بہت کم عمری سے ہی ایسی غندہ گردی کا شکار رہے ہوں۔ ہم ان کا 12 یا 13 سال کی عمر سے آپریشن کرتے ہیں۔ لیکن یہ خاص نوعیت کے کیسز ہوتے ہیں، یہ عام نہیں ہے۔‘

screen
Getty Images

کسی ماہر کی توجہ کا مرکز کسی نوجوان کی شخصیت بہتر بنانا ہوتا ہے۔

ان کے مطابق ’یہ فکری اور جذباتی نشوونما کے بارے میں ہے جس کی انھیں ضرورت ہے۔ نوعمر افراد کے پاس کوئی معیار نہیں ہوتا ہے، ایک دن وہ کچھ پسند کر سکتے ہیں اور دوسرے دن شاید وہ اسے پسند نہ کریں۔ اور ان تبدیلیوں میں وہ اپنی شخصیت کو دریافت کرتے ہیں، اور کاسمیٹک سرجری مناسب نہیں ہے۔‘

جارج آرویو یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایسے ممالک بھی ہیں جہاں ایک اخلاقیات کمیٹی نابالغوں کو کاسمیٹک سرجری کروانے کا فیصلہ کرتی ہے اور ان کی اجازت دیتی ہے۔

ان کی رائے میں ’دیگر لاطینی امریکی ممالک پہلے ہی یہ قانون سازی کر چکے ہیں، اور مجھے اس قانون کو آگے بڑھانے میں کوئی نقصان نظر نہیں آتا، جسے وہ نکولز لا کہنا چاہتے ہیں۔‘

جارج آرویو کے مطابق ابھی تک ایسی کوئی واضح تحقیق نہیں ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہو کہ آیا سوشل میڈیا یا خوبصورتی کے معیار کو فروغ دینے والی شخصیات کے اثرات کی وجہ سے کمسن، نوعمروں اور نوجوانوں میں سرجریوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

تاہم، ان کا خیال ہے کہ ان میڈیا آؤٹ لیٹس نے اسے مزید واضح کر دیا ہے: ’اس سے پہلے، لوگ نہیں جانتے تھے کہ ان تمام طریقہ کار کے لیے انھیں کس ڈاکٹر کے پاس جانا پڑتا ہے۔ آج، سوشل میڈیا کی بدولت یا نہیں، لوگ جانتے ہیں کہ اس قسم کے طریقہ کار قابل رسائی ہیں۔‘

ڈاکٹر مورو ارمینٹا نے زور دے کر کہا کہ میکسیکو میں ’نوعمروں میں سرجری اتنی عام نہیں ہے، وہاں اس طرح کے علاج میں کوئی بہت اضافہ دیکھنے کو نہیں ملا۔ اس کی ایک جزوی وجہ خاندانی خاندانی ہم آہنگی بھی ہو سکتی ہے جس کی وجہ سے کم عمر افراد اس طرف کا رخ نہیں کرتے۔

لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ کسی مصدقہ پیشہ ور معالجین کے پاس جانا مناسب ہے۔ ان کی رائے میں ’حقیقت میں خطرات کو کم کرنے کے لیے، کسی بھی قسم کے فرد کے لیے، انھیں سرٹیفائیڈ پلاسٹک سرجن کے پاس جانا چاہیے۔‘

اور وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اور اگر وہ مصدقہ، تجربہ کار اور پیشہ ور معالج بھی ہیں تو بھی اس طرح کے حادثات پیش آ سکتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US