یوکرین نے حال ہی میں اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائل ، فلیمنگو کو نصب کیا ہے لیکن اب بھی روس کے خلاف جنگ کو فیصلہ کن طور پر موڑنے کے لیے اسے ٹوماہاکس کی ضرورت ہے۔

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان جمعے کو متوقع ملاقات میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک کروز میزائل پر بات چیت ایجنڈے میں سب سے اوپر ہونے کا امکان ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں تجویز کیا تھا کہ وہ زیلنسکی کی طرف سے کیئو کو جدید ہتھیار دینے کی درخواست پر راضی ہو سکتے ہیں۔
یوکرینی صدر نے روس کے خلاف جوابی حملے شروع کرنے کے لیے طاقتور فوجی مدد پر باقاعدگی سے زور دیا ہے اور وہ اس ملاقات میں اچھی خبر کی امید کر رہے ہیں، جو جنوری کے بعد سے ان کا امریکی دارالحکومت کا تیسرا دورہ ہوگا۔
یوکرین نے حال ہی میں اپنے طویل فاصلے تک مار کرنے والے کروز میزائل فلیمنگو کو نصب کیا ہے لیکن اب بھی روس کے خلاف جنگ کو فیصلہ کن طور پر موڑنے کے لیے اسے ٹوماہاک کی ضرورت ہے۔
تو یہ امریکی میزائل اتنے اہم کیوں ہیں اور واشنگٹن نے انھیں پہلے یوکرین کو کیوں نہیں دیا؟
ٹوماہاک ہی کیوں؟
سنہ 2022میں روس کے حملے کے بعد سے یوکرین نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے لیے متعدد درخواستیں کی ہیں کیونکہ وہ ایسے روسی شہروں اور اہداف کو نشانہ بنانا چاہتا ہے جو میدانِ جنگ سے دور ہیں۔
ماسکو نے اس سے قبل واشنگٹن کو کیئو کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل فراہم کرنے کے خلاف متنبہ کیا تھا اور کہا تھا کہ اس سے تنازعے میں بڑے پیمانے پر کشیدگی آئے گی اور امریکہ اور روس کے تعلقات کشیدہ ہوں گے۔
اس سے قبل امریکہ کی جانب سے فراہم کردہ ٹوماہاک کے کچھ ورژنز کی رینج 2500 کلومیٹر ہے، جس سے ماسکو باآسانی ان میزائلوں کی رینج میں آ سکتا ہے جو یوکرین کی سرزمین سے داغے جائیں گے۔
اگرچہ ٹوماہاک سونک رفتار سے اڑتے ہیں لیکن وہ زمین سے صرف دسیوں میٹر کی اونچائی پر ہوتے ہیں، اس لیے انھیں روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔
بی بی سی روس کے دفاعی نامہ نگار پاویل کسینوف کے مطابق وہ اپنے جدید نیوی گیشن سسٹم کی وجہ سے انتہائی درستگی کے ساتھ اہداف کو نشانہ بنانے کے قابل ہیں۔
تاہم یوکرین کو ٹوماہاکس کی فراہمی میں ایک بڑی رکاوٹ ایک مناسب لانچ پلیٹ فارم کا ہونا ہو گا۔
یہ بنیادی طور پر ایک بحری میزائل ہے اور عام طور پر بحری جہازوں اور آبدوزوں کے ذریعے لے جایا جاتا ہے اور لانچ کیا جاتا ہے۔ یوکرین کے پاس فی الحال ٹوماہاکس کو فائر کرنے کے لیے منساب جہاز نہیں۔
امریکی فوج نے حال ہی میں نئے زمینی لانچر تیار کیے ہیں لیکن کیئو کی افواج کو انھیں استعمال کرنے سے پہلےتربیت کی ضرورت ہوگی۔
زیلنسکی کا جنوری کے بعد سے امریکی دارالحکومت کا تیسرا دورہ ہو گا امریکہ کتنے میزائل دے سکتا ہے؟
اسی طرح درستگی کے ساتھ اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کے موثر استعمال کے لیے امریکہ سے درست انٹیلیجنس کی ضرورت ہوگی۔
یوکرین کا واشنگٹن پر انحصار مارچ میں واضح ہوا جب امریکہ نے معلومات کے تبادلے کو عارضی طور پر معطل کردیا۔
فنانشل ٹائمز نے اطلاع دی ہے کہ اس کے بعد سے کیئو کے ساتھ امریکی انٹیلیجنس کے تبادلے میں اضافہ ہوا ، جس سے وہ اعداد و شمار فراہم کیے گئے ہیں جس نے روس کے اندر توانائی کی اہم تنصیبات بشمول تیل کی ریفائنریز پر حملوں کے قابل بنایا۔
صورتحال سے واقف حکام کے مطابق امریکی انٹیلیجنس کیئو کو اس کے ممکنہ حملوں کے راستے، اونچائی ، وقت اور حکمت عملی کا تعین کرنے میں مدد کرتی ہے۔
اس سے یوکرین کے حملہ آور ڈرونز کو روسی فضائی دفاع سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یوکرین کو ٹوماہاکس کی فراہمی کی جاتی ہے تو امریکی ماہرین میزائلوں کی تیاری اور ان کے پرواز کے راستوں کی منصوبہ بندی میں بہت زیادہ حصہ لیں گے۔
موجودہ امریکی اسلحہ خانے میں ٹوماہاکس کے ہزاروں میزائل موجود ہیں لیکن یوکرین کی جنگ نے یہ ظاہر کیا ہے کہ ایک بڑی فوج والے ملک کے ساتھ تنازعے کے لیے بڑی تعداد میں ہتھیار استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
چین کے ساتھ ممکنہ تنازعے کے امریکی خدشات کے پیش نظر واشنگٹن شاید یوکرین کو اتنے میزایل فراہم نہ کرے جتنے اسے فوجی اہداف کو تباہ کر کے جنگ کا رخ تبدیل کرنے میں مدد کر سکیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ حتیٰ کے پہلے یوکرین کو بھیجے گئے درجنوں میزائل کو دوسرے ذرائع کے ساتھ مل کر استعمال کرنے پر بھی جنگ کا رخ تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
روس نے خود یوکرین کے خلاف حملوں میں ڈرون کے ساتھ مختلف کروز میزائلوں کو مؤثر طریقے سے استعمال کرکے اس کا مظاہرہ کیا۔
تیل صاف کرنے کی تنصیبات پر یوکرین کی طرف سے درست حملوں نے حال ہی میں روس کی معاشی صورتحال کو پیچیدہ بنا دیا اور ٹوماہاکس کیئو کی ایسا کرنے کی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔
بدلتا ہوا مزاج
تیل صاف کرنے کی تنصیبات پر یوکرین کی طرف سے درست حملوں نے حال ہی میں روس کی معاشی صورتحال کو پیچیدہ بنا دیاحالیہ مہینوں میں روس کے بارے میں ٹرمپ کا رویہ سخت ہو گیا ہے خاص طور پر ولادیمیر پوتن کی جانب سے کیئو کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں تعاون نہ کرنے پر ان کے رویے میں بے چینی آئی ہے۔
انھوں نے اتوار کے روز کہا کہ ’کیا وہ چاہتے ہیں کہ ٹوماہاکس ان کی سمت میں جائیں؟ میرا نہیں خیال۔‘
روس نے ان کے بیان پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ٹوماہاکس کے بارے میں بات کرنا ’انتہائی تشویش‘ کا باعث ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اب واقعی ایک بہت ہی ڈرامائی لمحہ ہے کہ ہر طرف سے کشیدگی بڑھ رہی ہے۔‘
ستمبر میں پیسکوف نے ٹوماہاکس کے خطرے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ جنگ کو تبدیل نہیں کرسکیں گے لیکن اپنے حالیہ تبصرے میں انھوں نے کہا کہ اگر وہ روس پر لانچ کیے جاتے ہیں تو ماسکو کو یہ پتا نہیں چلے گا کہ آیا وہ جوہری ہتھیار لے کر جا رہے ہیں یا نہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’روسی فیڈریشن کو کیا سوچنا چاہیے؟ روس کو کس طرح کا رد عمل ظاہر کرنا چاہیے؟‘
سابق روسی صدر دمتری میدویدیف نے پیسکوف کے بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’روس کو کیا جواب دینا چاہیے؟‘
میدویدیف نے سوشل میڈیا پر کہا کہ ’ان میزائلوں کی ترسیل ہر ایک کے لیے برا انجام ہو سکتی ہے اور سب سے پہلے خود ٹرمپ کے لیے۔‘
میدویدیف جو پچھلے کچھ برسوں میں تیزی سے جنگ کے حامی بن چکے ہیں اکثر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہیں جس میں روسی حکومت کی سرکاری لائن سے کہیں زیادہ انتہائی پوزیشن کی حمایت کی جاتی ہے۔
وہ اس سے پہلے بھی ٹرمپ کے ساتھ جھگڑا کر چکے ہیں۔ اگست میں میدویدیف کے آن لائن تبصرے کے بعد امریکی صدر نے کہا تھا کہ انھوں نے دو جوہری آبدوزوں کو روس کے قریب جانے کا حکم دیا ہے۔
اپنی حالیہ فون کالز میں زیلنسکی اور ٹرمپ نے یوکرین کی فوجی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کی کوشش پر تبادلہ خیال کیا جس میں فضائی دفاع اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں کو فروغ دینا شامل ہے۔
کیئو سمیت یوکرین کے شہر بار بار ڈرونز اور میزائلوں کی شدید روسی بمباری کی زد میں آ چکے ہیں۔
روس نے خاص طور پر یوکرین کے توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنایا کیونکہ موسم سرما قریب آرہا ہے اور اس وجہ سے بڑے پیمانے پر بجلی کر فراہمی معطل ہو رہی ہے۔
گذشتہ ماہ یوکرین کے لیے ٹرمپ کے خصوصی ایلچی کیتھ کیلوگ نے کہا تھا کہ امریکی صدر نے روسی علاقے میں اندر تک حملوں کی اجازت دی ہے، انھوں نے فاکس نیوز کو بتایا کہ روس یوکرین جنگ میں’پناہ گاہوں جیسی کوئی چیز نہیں۔‘
ہیری سیکولچ، لورا گوزی، بی بی سی نیوز روسی سروس اور بی بی سی گلوبل جرنلزم کی اضافی رپورٹنگ