کئی دہائیوں تک ہر مرد اُس کا خواب دیکھتا رہا۔ ہر معاصر اداکارہ کی یہ خواہش رہی کہ اسے وہ شہرت اور دولت نصیب ہو جو اسے ہوئی۔
یہ اس اداکارہ کی زیست کا بیان ہے جس نے پروڈیوسروں کے اُس دیرینہ خواب کو حقیقت بنا دیا کہ بالی وڈ میں ایک ایسی خاتون سٹار بھی ہو جو فلم کی کامیابی کی ضمانت بن جائے۔
ایک وقت تھا کہ اُس کا جادو کچھ یُوں سر چڑھ کر بولتا تھا کہ اُس نے ملک کے ’وجیہہ ترین مرد‘ کو بھی اپنی زُلفوں کا اسیر بنا لیا۔
یہ کہانی ہے بالی وڈ کی ڈریم گرل ہیما مالنی کی جن کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ موسم بدلتے رہیں گے مگر ہیما مالنی ہمیشہ انڈین فلموں کی ’ڈریم گرل‘ رہیں گی۔
آگے بڑھنے سے قبل یہ ذکر کرتے چلیں کہ آج ہیما مالنی کا جنم دن ہے کیوں کہ یہ بے مثل اداکارہ آج ہی کے روز 16 اکتوبر 1948کو انڈین ریاست تمل ناڈو کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئیں۔
وہ ایک عہد کی نمائندہ ہیں، جنہیں مداحوں کی جانب سے وہ پذیرائی حاصل ہوئی جو امیتابھ بچن، راجیش کھنہ اور دھرمیندر جیسے مرد سپرسٹارز کی مقبولیت سے ہی مقابلہ کر سکتی تھی۔
آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ہیما مالنی نے جب فلمی دنیا کی چکاچوند میں قدم رکھا تو 15 سال کی عمر میں ایک تمل فلم پروڈیوسر نے دُبلا پتلا ہونے کی وجہ سے اُنہیں رَد کر دیا تھا۔
ہیما مالنی مایوس ہو سکتی تھیں، یہ بھی ممکن تھا کہ وہ فلموں میں کام ہی نہ کرتیں مگر اس رَد کیے جانے نے اُنہیں اس راستے پر چلنے کی ترغیب دی جو ان کی ترقی کی ضمانت بن گیا۔ انہوں نے رقص سیکھا اور بھرت ناٹیم میں مہارت حاصل کی۔
انہوں نے پانچ برس بعد فلمی صنعت میں دوبارہ طبع آزمائی کی تو فلم ’سپنوں کا سوداگر‘ میں بالی وڈ کے شومین راج کپور کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
یہ فلم ہیما مالنی کو بڑی بریک دلانے میں کامیاب نہ ہو سکی مگر انہیں زیادہ دیر انتظار نہیں کرنا پڑا کیوں کہ جلد ہی انہیں وجے آنند اور دیو آنند کی فلم ’جونی میرا نام‘ میں کام کرنے کی پیش کش ہوئی۔
’جونی میرا نام‘ کی سب سے بڑی کامیابی باکس آفس کے ریکارڈ توڑ نتائج نہیں بلکہ یہ تھی کہ ہندی سنیما کو مدھوبالا کے بعد ’سب سے خوب صورت اداکارہ‘ مل گئی۔
اداکارہ ہیما مالنی اور دھرمیندر کی داستانِ عشق تمام رُکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے کامیاب رہی (فائل فوٹو: سکرین گریب)
یوں بالی وڈ کی ڈریم گرل کے کامیاب سفر کا آغاز ہوا۔ انہوں نے شمّی کپور اور میگا سٹار راجیش کھنہ کے ساتھ فلم ’انداز‘ میں ایک کیمیو کردار ادا کیا اور یوں وہ چند ہی فلموں کے بعد مصروف ترین ہی نہیں کامیاب ترین اداکارہ بھی بن گئیں۔
ہیما مالنی نے اس زمانے میں ہی ’سیتا اور گیتا‘ میں ایک ساتھ دو کردار ادا کیے جو اس وقت خواتین اداکاراؤں کے لیے ایک نیا رجحان تھا۔
سنہ 1977 میں ریلیز ہوئی فلم ’ڈریم گرل‘ نے ہیما مالنی کو بالی وڈ کی سدا بہار ڈریم گرل بنا دیا۔ انہوں نے اس فلم میں دھرمیندر کے مقابل کام کیا۔ لیجنڈ کشور کمار کی آواز میں گیت ’ڈریم گرل‘ ایورگرین قرار پایا۔
ہیما مالنی کو ڈریم گرل کی عُرفیت کس طرح ملی؟ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ فلم ’ڈریم گرل‘ تو ایک وجہ ہو سکتی ہے مگر ہیما مالنی کو یہ خطاب ان کی پہلی فلم کی ریلیز کے ساتھ ہی مل گیا تھا۔
اداکارہ کی سوانح عمری ’ہیما مالنی: ڈریم گرل سے آگے‘ میں اداکارہ کہتی ہیں کہ ’یہ خیال (فلم کے پروڈیوسر) اننتھ سوامی کا تھا۔ ہم نے سوچا کہ یہ بس ایک پبلسٹی سٹنٹ ہے اور فلم کی ریلیز کے بعد لوگ اسے بھول جائیں گے۔‘
’کچھ پوسٹرز واقعی بہت مزاحیہ تھے۔ اُن پر لکھا ہوتا، ’44 سال کے راج کپور، 16 سال کی ہیما مالنی سے محبت میں!‘ میں اِس ساری تشہیری مہم سے لُطف اندوز ہو رہی تھی۔‘
کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ اداکار سنجیو کمار اور ہیما مالنی میں بات شادی تک پہنچ گئی تھی۔ (فائل فوٹو: انڈیا فورمز ڈاٹ کام)
اداکارہ مزید بتاتی ہیں کہ ’فلم ’سپنوں کا سوداگر‘ ریلیز ہوئی تو پریس اور فلم بینوں نے مجھے ‘ڈریم گرل’ کہنا شروع کر دیا۔ میں دیکھ سکتی تھی کہ یہ نام کتنی جلدی مقبول ہو گیا۔
’لوگ اکثر مجھ سے پوچھتے کہ کیا میں نے اس نام کے مطابق اپنی زندگی گزارنے کی کوشش کی؟ میں نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ یہ ٹیگ میرے لیے بالکل حیرت انگیز تھا۔‘
ہیما مالنی کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں میرا چہرہ اور شخصیت عام انڈین عورت کے تصور سے میل کھاتی تھی۔ ہر کوئی میرے چہرے سے تعلق قائم کر سکتا تھا، یہ ایک عام انڈین چہرہ ہے۔‘
’ہاں، ایک بات جو میں نے ہمیشہ کی وہ یہ تھی کہ کبھی ایسے کردار قبول نہیں کیے جو میرے خاندان یا مداحوں کو شرمندگی یا تکلیف پہنچائیں۔ اس لیے یہ نام جم گیا۔‘
اداکارہ کے مطابق ’ڈسٹری بیوٹرز اور پروڈیوسرز نے ’ڈریم گرل‘ کو مسلسل استعمال کیا، لیکن آج کل مجھے شرم آتی ہے جب لوگ مجھے ‘ڈریم گرل’ کہتے ہیں۔ میں اب تقریباً لڑکی نہیں رہی۔‘
ڈریم گرل کا تصفیہ حل ہوا تو یہ ذکر کرتے چلیں کہ ہیما مالنی اس وقت بالی وڈ میں اپنی منفرد پہچان بنا چکی تھیں جب متوازی سنیما کی روایت کو فروغ حاصل ہونا شروع ہوا اور لوگ شبانہ اعظمی اور سمیتا پٹیل کی جانب متوجہ ہونے لگے۔
ہیما مالنی ’خوشبو‘ اور ’میرا‘ جیسی آف بیٹ فلموں کے ذریعے بھی فلم بینوں کو حیران کرتی رہیں (فائل فوٹو: پِنٹرسٹ)
تاہم ہیما مالنی کا جادو اس عہد میں بھی برقرار رہا اور وہ گلزار کی ’خوشبو‘ اور ’میرا‘ جیسی آف بیٹ فلموں کے ذریعے فلم بینوں کو حیران کرتی رہیں۔
بالی وڈ میں ہیما مالنی اور دھرمیندر کی پریم کہانی کے تو بہت چرچے ہوئے مگر شاید کم لوگ ہی جانتے ہوں گے کہ بے مثل اداکار سنجیو کمار اور ہیما مالنی میں بات شادی تک پہنچ گئی تھی۔
دونوں کے درمیان محبت کی اس ادھوری کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب وہ دونوں 1972 میں فلم ’سیتا اور گیتا‘ کے سیٹ پر ملے۔
حنیف زویری اور سیمنت باتارا، سنجیو کمار پر اپنی کتاب ’این ایکٹرز ایکٹر‘ میں لکھتے ہیں کہ وہ دونوں اس وقت قریب آئے جب وہ مشہور گانے ’ہوا کے ساتھ ساتھ‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے، یہ گانا مہابلیشور کی دلکش سڑکوں پر فلمایا گیا جو اُن کی محبت کا ثبوت بن گیا۔
کتاب کے مطابق اس دوران ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے سنجیو کمار اور ہیما مالنی کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
دونوں گیت ’ہوا کے ساتھ ساتھ‘ کی شوٹنگ کر رہے تھے جب ٹرالی بے قابو ہو گئی اور ایک پہاڑ کی طرف مُڑ گئی۔ یہ ان دونوں کی خوش قسمتی تھی کہ آگے کی جانب سے سڑک اندر کی طرف مُڑی ہوئی تھی اور وہ خطرناک چٹان سے دُور جا گرے۔
ہیما مالنی نے فلمی دنیا میں قدم رکھا تو ایک تمل فلم پروڈیوسر نے دُبلا پتلا ہونے کی وجہ سے اُنہیں رَد کر دیا (فائل فوٹو: پِنٹرسٹ)
وہ اس حادثے میں تو بچ گئے مگر محبت کے رشتے میں بندھ گئے۔ سنجیو کمار تو اب ہیما مالنی سے ہی شادی کرنا چاہتے تھے لیکن ایک رُکاوٹ ان کی والدہ شانتا بین تھیں۔
وہ ابتدا میں ہیما مالنی سے متاثر ہوئیں۔ دونوں خاندانوں کی ملاقات ہوئی اور یہ دونوں خاندان ایک دوسرے سے مل کر خوش بھی ہوئے۔
دونوں اداکاروں کا تعلق اگرچہ انتہائی مختلف ثقافتی پس منظر سے تھا لیکن یہ ان کے بیچ کبھی رکاوٹ نہیں بنا، البتہ ہیما مالنی کا فلمی کیریئر اُن کے رومانی تعلق میں ہڈی بن گیا۔
سنجیو کی والدہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کی ہونے والی بہو اداکاری کرے مگر ہیما مالنی کی والدہ جیا چکرورتی نے یہ شرط رکھی کہ ان کا بیٹا ہیما سے شادی کر سکتا ہے مگر وہ اسے اداکاری کرنے سے نہیں روکے گا۔
ہیما مالنی اس وقت بالی وڈ کی سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکاراؤں میں سے ایک تھیں اور انہیں امید تھی کہ سنجیو کمار بالآخر راضی ہو جائیں گے اور انہیں اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کی اجازت دے دیں گے۔
تاہم، دونوں فریق ہی جب اپنی شرط سے ٹَس سے مَس نہ ہوئے تو یہ رشتہ آگے نہ بڑھ سکا۔
ڈریم گرل نے آگے بڑھنے کے لیے رقص سیکھا اور بھرت ناٹیم میں مہارت حاصل کی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
اداکارہ نے 1991 میں ایک فلمی جریدے کو دیے گئے انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ایک سنجیو کمار تھے جو ایسی بیوی چاہتے تھے جو گھر میں رہے، قربانی دے، اُن کی بوڑھی والدہ کی دیکھ بھال کرے اور انہیں سپورٹ کرے جب کہ وہ خود ناظرین کو متاثر کر رہے تھے اور تعریفیں سمیٹ رہے تھے۔‘
’اس سے بظاہر لگتا ہے کہ وہ میل شاؤنسٹ تھے لیکن اُن کے بارے میں کوئی سخت رائے قائم کرنے سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے تو اس وقت شوبز کا انتخاب کرنے والی خواتین کو اچھا نہیں جانا جاتا تھا۔‘
یہ پریم کہانی تو ناکام رہی مگر ہیما مالنی اور دھرمیندر کی داستانِ عشق تمام رُکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے کامیاب رہی۔ ہیما مالنی اگر بالی وڈ کی ’حسین ترین‘ اداکارہ تھیں تو دھرمیندر بالی وڈ کے ’خوبرو ترین مرد‘ تھے۔
ان دونوں کی پریم کتھا تاریخ کے اوراق میں لکھی جا چکی ہے۔ یہ فلم ’تم حسین میں جوان‘ تھی جس کی شوٹنگ کے دوران اس پریم کہانی کا آغاز ہوا، دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور جلد ہی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے۔
دھرمیندر اس وقت پہلے ہی پرکاش کور سے شادی شدہ تھے اور اُن کے دو بیٹے، سنی اور بوبی تھے، لیکن اس کے باوجود وہ ہیما سے محبت کرنے اور انہیں اپنے دل میں بسانے سے خود کو روک نہیں سکے۔
رکنِ پارلیمنٹ کی حیثیت سے ہیما مالنی کی سیاسی جدوجہد عوامی خدمت کے جذبے کی مظہر تھی (فائل فوٹو: اے این آئی)
دوسری جانب ہیما مالنی کے چاہنے والوں میں سنجیو کمار اور جتندر جیسے اداکار رہے تھے مگر وہ تو دھرمیندر کو دل دے چکی تھیں۔
اداکارہ نے ایک انٹرویو میں یہ انکشاف کیا تھا کہ ’وہ گیت ’جٹ یملا پگلا دیوانہ‘کی شوٹنگ کے دوران دھرمیندر کے عشق میں مبتلا ہوئیں۔‘
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ ’گیت کے دوران دھرمیندر کے ڈانس کرنے کے انداز نے مجھے فوراً اپنا دیوانہ بنا لیا۔‘
ان دنوں یہ افواہیں بھی پھیلیں کہ دھرمیندر نے فلم ’شعلے‘ کے ایک خاص منظر کی شوٹنگ کے دوران لائٹ بوائز کو پیسے دے کر سیٹ کی روشنی خراب کرنے کی کوشش کی، تاکہ سین کے بار بار ری ٹیک سے انہیں ہیما مالنی کو بارہا بانہوں میں تھامنے کے مواقع ملیں۔
ان دونوں کی شادی میں سب سے بڑی رکاوٹ اداکارہ کے اپنے والد تھے جو ہیما مالنی کی دھرمیندر سے شادی کے خلاف تھے۔
ہیما مالنی نے انڈین ریئلٹی شو ’انڈین آئیڈل 12‘ کے سیٹ پر ایک دلچسپ واقعہ شیئر کیا تھا۔ انہوں نے بتایا تھا کہ ’ایک بار ایک گانے کی شوٹنگ کے دوران ان کے والد ان کے ساتھ سیٹ پر آگئے تھے تاکہ ہیما مالنی اور دھرمیندر کو ایک ساتھ وقت گزارنے سے روک سکیں۔‘
اداکارہ نے یاد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عام طور پر میری والدہ یا میری خالہ شوٹنگ پر میرے ساتھ جاتی تھیں لیکن ایک گانے کی شوٹنگ کے دوران میرے والد میرے ساتھ گئے کیوں کہ وہ فکرمند تھے کہ میں اور دھرم جی کچھ وقت اکیلے نہ گزاریں کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ ہم دوست ہیں۔‘
دیو آنند کی فلم ’جونی میرا نام‘ سے ہندی سنیما کو مدھوبالا کے بعد ’سب سے خوب صورت اداکارہ‘ مل گئی (فائل فوٹو: سکرین گریب)
انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’مجھے یہ یاد ہے جب ہم گاڑی میں سفر کرتے تھے تو میرے والد فوراً میرے ساتھ بیٹھ جاتے تھے لیکن دھرم جی بھی کم نہیں تھے، وہ اگلی سیٹ پر ہی بیٹھتے۔‘
اداکارہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ ’میں نے جب دھرم جی کو دیکھا تو میں یہ جان گئی تھی کہ وہ میرے لیے ہی بنے ہیں اور میں اپنی زندگی اُن کے ساتھ گزارنا چاہتی تھی اور میں یہ بھی یقینی بنانا چاہتی تھی کہ ہماری شادی سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔‘
ہیما اور دھرمیندر کی شادی میں ایک اور رُکاوٹ بھی تھی۔ دھرمیندر شادی شدہ تھے اور اُن کی اہلیہ اُنہیں طلاق نہیں دینا چاہتی تھیں جب کہ ہندو میرج ایکٹ کے تحت دھرمیندر کے لیے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ دوسری شادی کر پاتے۔
چناںچہ ان دونوں نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا اور سال 1980 میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔
اداکارہ کی سوانح حیات ’ہیما مالنی: ڈریم گرل سے آگے‘ کے مطابق ‘اس وقت انڈیا بھر میں یہ قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ دونوں نے اپنی محبت کو امر کرنے کے لیے زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کرتے ہوئے اسلام قبول کر لیا جس کے بعد اپنا نام بدل کر دلاور اور عائشہ بی رکھ کر سال 1979 میں نکاح کر لیا۔‘
انڈین حکومت نے ہیما مالنی کو ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں پدم شری ایوارڈ سے نوازا (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)
ان دونوں ستاروں کے اسلام قبول کرنے کا معاملہ بارہا خبروں میں شہ سُرخیاں بنتا رہا۔ یہ معاملہ سال 2004 میں ایک مرتبہ پھر اس وقت خبروں میں آیا جب دھرمیندر لوک سبھا کے انتخابات میں حصہ لے رہے تھے۔
دھرمیندر کے کاغذاتِ نامزدگی پر سوال اٹھاتے ہوئے اپوزیشن جماعت کانگریس نے نشان دہی کی کہ اداکار دھرمیندر نے اپنے اثاثوں کے اعلان کے دوران صرف پہلی اہلیہ ’پرکاش کور‘ کی جائیدادوں کا اعلان کیا اور کہیں بھی دوسری اہلیہ اداکارہ ہیما مالنی کا ذکر نہیں کیا گیا۔
اداکارہ سے جب اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ ’یہ ہمارے خاندان کا انتہائی نجی معاملہ ہے جسے ہم آپس میں طے کر لیں گے چنانچہ کسی اور کو اس کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘
یوں ان افواہوں نے دم توڑا۔ دھرمیندر نے اداکارہ کی سوانح عمری میں واضح کیا تھا کہ ’میں نے کبھی اپنا مذہب تبدیل نہیں کیا۔ مذہب تبدیل کرنے کے تمام تر الزامات بالکل غلط ہیں کیوں کہ میں اس قسم کا آدمی نہیں ہوں جو اپنے مفادات کے لیے اپنا مذہب تک تبدیل کر لے۔‘
اداکارہ نے ایک کامیاب ازادواجی اور فنی زندگی گزاری۔ ان کی دو بیٹیاں ایشا دیول اور آہانا دیول ہیں۔ ایشا دیول خود بھی اداکارہ ہیں اور کئی فلموں میں جلوہ گر ہو چکی ہیں۔
اداکارہ کی ایک بیٹی ایشا دیول خود بھی اداکارہ ہیں اور کئی فلموں میں جلوہ گر ہو چکی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ہیما مالنی کو اگرچہ ہمیشہ اُن کے حسن، دلکشی اور نفاست کے لیے سراہا گیا، لیکن انہوں نے بارہا ثابت کیا کہ ان کا فن محض ان کے ملکوتی حسن تک محدود نہیں۔
انہوں نے فلم ’رہائی‘ میں خواتین کی خودمختاری جیسے نازک موضوع پر کام کیا تو ’اِک چادر میلی سی‘ میں انسانی رشتوں کی پیچیدگیوں کو حقیقت پسندی سے بڑے پردے پر پیش کیا۔
ان کرداروں نے ان کی یہ صلاحیت نمایاں کی کہ وہ جذبات کے کئی رنگوں کو ایک ہی کردار میں سمو سکتی ہیں۔ اداکارہ نے سنجیدہ اور معنی خیز سنیما کی طرف قدم بڑھا کر یہ ثابت کیا کہ وہ تجارتی کامیابی اور فنی گہرائی کے درمیان ایک نازک توازن قائم کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں۔ ان کی فلمی جدوجہد آج بھی نئی نسل کے فنکاروں کے لیے تحریک کا سرچشمہ ہے۔
ہیما مالنی کو ان کے طویل فنی کیریئر میں بہت سے اعزازات سے نوازا گیا۔ فلم ’سیتا اور گیتا‘ کے لیے بہترین اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ بعد ازاں انڈین حکومت نے انہیں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں پدم شری سے نوازا۔
اداکارہ کو ملنے والا ہر ایوارڈ اس بات کی علامت ہے کہ اُن کی شناخت صرف ایک اداکارہ کے طور پر نہیں بلکہ ایک ممتاز رقاصہ، پروڈیوسر اور سماجی رہنما کے طور پر بھی کی جاتی ہے، جنہوں نے انڈین ثقافت کو نئی جہت دی۔
انہوں نے اپنے شوہر دھرمیندر کے ساتھ 40 سے زیادہ فلموں میں کام کیا اور یوں بالی وڈ کی ایک ناقابلِ فراموش جوڑی بنائی۔ کلاسیکی رقاصہ کی حیثیت سے متعدد یادگار کھیل پیش کیے جن میں روایت اور جدیدیت کا حسین امتزاج تھا، جس نے آنے والی فنکاروں کی نئی نسل کو متاثر کیا۔ پارلیمنٹ کی رُکن کی حیثیت سے ان کی سیاسی جدوجہد عوامی خدمت کے جذبے کی مظہر تھی۔
یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ہیما مالنی کا اثر دہائیاں گزرنے کے باوجود بھی کم نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے طویل کیریئر کے دوران یہ ثابت کیا کہ فنکارانہ صلاحیتوں اور سماجی ذمہ داریوں میں توازن قائم کرنا کچھ ایسا مشکل بھی نہیں۔