ماسکو میں ایک پرانے اتحادی اور واشنگٹن کے بڑھتے دباؤ کے درمیان پھنسے انڈیا کی توانائی کی پالیسی ایک نازک توازن کا عمل بن چکی ہے لیکن روسی تیل انڈین معیشت کے لیے کتنا اہم ہے؟
ٹرمپ اور مودی کی فروری میں وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ملاقات کی تصویر روس سے تیل خریدنے کی پاداش میں سب سے پہلے اگست میں محصولات عائد کیے گئے، جو انڈین سامان پر 50 فیصد ڈیوٹی کی صورت میں سامنے آئے۔
اس کے بعد اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کے روز یہ دعویٰ کیا کہ انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے نجی طور پر ’مختصر مدت میں‘ ان خریداریوں کو ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔
اگلے دن روس نے محتاط انداز میں جواب دیا تاہم انڈیا نے ان کے بیان سے خود کو دور کر لیا۔
دہلی میں روس کے سفیر ڈینس علیفوف نے کہا کہ ’ان کا تیل انڈین معیشت اور ہندوستانی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔‘
انڈین حکومت نے کہا کہ اس کی درآمدی پالیسی توانائی کے غیر مستحکم منظر نامے میں انڈین صارفین کے مفادات کے مطابق ہے اور بعد ازاں ایک ترجمان نے مزید کہا کہ وہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان ہونے والی کسی بھی بات چیت سے لاعلم ہیں۔
ماسکو میں ایک پرانے اتحادی اور واشنگٹن کے بڑھتے دباؤ کے درمیان پھنسے انڈیا کی توانائی کی پالیسی ایک نازک توازن کا عمل بن چکی ہے لیکن روسی تیل انڈین معیشت کے لیے کتنا اہم ہے؟
گزشتہ برس دنیا بھر میں سب سے زیادہ تیل درآمد کرنے والے تیسرے ملک انڈیا نے روسی خام تیل کی 52.7 ارب ڈالر کی خریداری کی تھی جو اس کے تیل کے بل کا 37 فیصد ہے اور اس کے بعد عراق، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، نائیجیریا اور امریکہ کا نمبر آتا ہے۔
2021-22میں انڈیا کو خام تیل فراہم کرنے والے 10 ممالک میں روس، عراق، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، امریکہ، برازیل، کویت، میکسیکو، نائیجیریا اور عمان شامل تھے۔
باقی 31 ممالک نے چھوٹے معاہدے کیے جو عالمی قیمتوں کے ساتھ چلتے ہیں۔
اگرچہ عام تاثر ہے کہ انڈیا صرف روسی تیل پر انحصار کرتا ہے لیکن وہ امریکہ سے بھی کافی مقدار میں تیل درآمد کرتا ہے۔
دہلی میں قائم ایک تھنک ٹینک گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو (جی ٹی آر آئی) کے مطابق 2024 میں انڈیا نے 7.7 ارب ڈالر کی امریکی پٹرولیم مصنوعات خریدیں، جس میں 4.8 ارب ڈالر کا خام تیل بھی شامل ہے لیکن پھر بھی واشنگٹن کے ساتھ 3.2 ارب ڈالر کا پیٹرولیم تجارتی خسارہ ہے۔
سنہ 2018-19 اور 2021-22کے درمیان انڈیا کی تیل کی خریداری میں پہلی بڑی تبدیلی آئی۔
دہلی میں قائم ایک تھنک ٹینک سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے پارتھا مکھوپادھیائے کی ایک تحقیق کے مطابق ایران اور وینزویلا سے درآمدات کو مرحلہ وار ختم کر دیا گیا، ان کی جگہ زیادہ تر عراق، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے روایتی سپلائرز نے لے لی۔
چونکہ ان دونوں ممالک کو شدید پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا اس لیے انڈیا کے لیے ان سے تیل کی درآمد جاری رکھنا مشکل ہو گیا۔
دوسری تبدیلی یوکرین جنگ کے ساتھ آئی۔
انڈیا کی روسی تیل کی درآمدات 2021-22میں 40 لاکھ ٹن سے بڑھ کر 2024-25میں آٹھ کروڑ 70 لاکھٹن سے زیادہ ہو گئیں۔
یہ اضافہ مغربی پابندیوں کے بعد روس کی طرف سے پیش کردہ چھوٹ کی وجہ سے ہوا ، جس نے اس کا خام تیل انڈین ریفائنرز کے لیے زیادہ پرکشش بنا دیا۔
سنہ2021-22کے بعد روسی تیل نے 2022-23میں اوسطا 14.1فیصد اور 2023-24میں 10.4 فیصد کی رعایت کی، جس سے انڈیا کو سالانہ تقریباً پانچ ارب ڈالر کی بچت ہوئی جو قریباً اس کے خام تیل کے درآمدی بل کا تین سے چار فیصد ہے۔
اگرچہ تینوں خلیجی ممالک عراق، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حصص میں 11 فیصد پوائنٹس کی کمی دیکھی گئی لیکن ان کا اصل حجم مستحکم رہا کیونکہ انڈیا کی مجموعی درآمدات 19 ارب 60 لاکھ سے بڑھ کر 24 ارب 40 لاکھ ٹن ہو گئیں۔
اس ایڈجسٹمنٹ کا بڑی حد تک اثر دوسرے ممالک پر پڑا، امریکہ، برازیل، کویت، میکسیکو، نائیجیریا اور عمان سے درآمدات نصف ہو گئیں اور باقی کے 31 چھوٹے سپلائرز میں بھی کمی واقع ہوئی۔
مکھواپادھیائے کہتے ہیں کہ اس طرح روس سے درآمدات میں اضافے کے ساتھ ساتھ بہت سے ممالک کی درآمدات میں کمی آئی۔
دوسرے لفظوں میں روس کے عروج کی قیمت تقریباً ہر ملک نے ادا کی۔
انڈیا کی بڑے پیمانے پر ریفائنریاں بڑھتی ہوئی گھریلو اور برآمدی طلب کو پورا کرنے کے لیے روزانہ لاکھوں بیرل خام تیل کو پروسیس کرتی ہیںاگرچہ انڈیا کے لیے رعایتی روسی تیل سے ہونے والی بچت معمولی ہے۔
روسی تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی بچت انڈیا کے 900 ارب ڈالر کے درآمدی بل کے ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن اسکے باوجود انڈیا اپنے اس اقدام سے 9 ارب ڈالر کی بچت کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر انڈیا نے روس سے تیل کی خریداری روک دی تو عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں، جس سے ہونے والی بچت ختم ہو سکتی ہے اور درآمدی اخراجات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، نہ صرف انڈیا بلکہ دنیا بھر کے لیے۔‘
درحقیقت، رعایتی روسی خام تیل خریدنے سے نہ صرف دہلی کو اپنی معیشت بحال کرنے میں مدد ملی جبکہ اس نے خاموشی سے عالمی قیمتوں کو مستحکم کیا۔
اس سال تیل کی قیمتیں 27فیصد گر گئی ہیں، جو 78ڈالر فی بیرل سے 59ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں۔
مکھواپادھیائے کہتے ہیں کہ ’مجموعی طور پر مارکیٹ میں کمزور طلب دوسرے ممالک کے لیے عالمی پیداوار کے چار سے پانچ فیصد کی تلافی کرنا بھی آسان بناتی ہے جس کی یہ درآمدات نمائندگی کرتی ہیں۔‘
انڈیا کے سابق تجارتی عہدیدار اور جی ٹی آر آئی کے سربراہ اجے شریواستو کا کہنا ہے کہ انڈیا کے لیے روسی تیل ’قیمتوں میں استحکام اور ریفائنری کی مطابقت پیدا کرتا ہے۔‘
زیادہ تر انڈین ریفائنریز روس کے یورالس مرکب کی طرح بھاری خام تیل کے لیے موضوع ہیں۔
شریواستو کا کہنا ہے کہ ان کو ہلکے امریکی شیل سے تبدیل کرنے کے لیے مہنگی تنظیم نو کی ضرورت ہوگی اور اس سے ڈیزل اور جیٹ ایندھن کی پیداوار میں کمی آ سکتی ہے۔
یورالس مرکب ایک درمیانے سے بھاری درجے کا روسی خام تیل ہے، جس کا مطلب ہے کہ انڈین ریفائنریز بڑی ایڈجسٹمنٹ کے بغیر اسے موثر طریقے سے پروسیس کرنے کے لیے موزوں ہیں۔
شریواستو کا کہنا ہے کہ دہلی کے لیے، تجارت کے راستے واضح ہیں، یا تو رعایتی روسی تیل کی خریداری جاری رکھے اور امریکی انتقامی کارروائی کا خطرہ مول لے، یا مشرق وسطیٰ اور امریکی مہنگے تیل پر منتقل ہو اور گھریلو ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کا سامنا کرے۔
جیسے جیسے واشنگٹن سختیاں بڑھا رہا ہے انڈیا خود کو ایک مخمصے میں پھنسا پاتا ہے۔