’میں اسے مار کر دفنا دوں گا اور وہ کبھی ڈھونڈ نہیں پائیں گے‘: قتل کا مقدمہ جس میں لاش تو برآمد نہ ہوئی لیکن سزا سنا دی گئی

قتل کے مقدمے کی سماعت کے دوران سیدرک یوبیلے نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن جیوری نے انھیں قصور وار قرار دیتے ہوئے 30 سال قید کی سزا سنائی۔
سیدرک یوبیلے کے نفسیاتی معائنہ سے پتہ چلا کہ وہ ایک غیر ذمہ دار انسان ہیں اور اُن کا بچین بھی بہت اچھا نہیں گزرا تھا
LIONEL BONAVENTURE/AFP
سیدرک یوبیلے کے نفسیاتی معائنہ سے پتہ چلا کہ وہ ایک غیر ذمہ دار انسان ہیں اور اُن کا بچین بھی بہت اچھا نہیں گزرا تھا

فرانس کی ایک عدالت نے بیوی کے قتل کے مقدمے میں شوہر کو مجرم قرار دیتے ہوئے 30 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقتولہ کی لاش برآمد نہیں ہوئی لیکن شوہر کو سزا سنائی گئی۔

قتل کے اس مقدمے میں چار ہفتے تک جاری رہنے والی سماعت کے دوران 38 سالہ پینٹر سیدرک یوبیلے نے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی لیکن جیوری نے انھیں قصور وار قرار دیتے ہوئے 30 سال قید کی سزا سنائی۔

فرانس کے جنوبی قصبے ایلبی میں سماعت کے دوران ملزم کے وکیل کا کہنا تھا کہ چونکہ اُن کی بیوی کی لاش کبھی نہیں ملی، اس لیے اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ جرم سرزد ہوا لیکن چھ عام شہریوں اور مجسٹریٹس پر مشتمل جیوری نے فیصلہ کیا کہ حالات یہ ثابت کرتے ہیں کہ سیدرک نے ہی قتل کیا۔

سیدرک یوبیلے کے وکلا کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے انھیں ’مایوسی‘ ہوئی لیکن وہ فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے۔

اس جوڑے کے دو بچے بھی ہیں اور ان کے بچوں کا خیال رکھنے والی خاتون لارینٹ بوگیٹ کا کہنا ہے کہ ’ڈیلفین کا قتل اُن کے شوہر کے ہاتھوں ہوا اور اب سیدرک یوبیلے ہی بتائیں گے کہ ان کی لاش کہاں ہے تاکہ اُسے اُن کے خاندان کو دیا جائے۔‘

Two lawyers clasp their hands to their faces in disbelief
LIONEL BONAVENTURE/AFP
سیدرک یوبیلے کے وکلا کے لیے عدالت کا فیصلہ بہت حیران کن تھا

پانچ سال قبل ہونے والے اس قتل کی واقعے پر سوشل میڈیا پر بہت بات چیت ہوئی۔ کئی شوقیہ جاسوسی کرنے والے افراد نے بھی تحقیقات شروع کر دیں جو پولیس اور خاندان کے لیے تشویش کا باعث بنیں۔

یہ کووڈ کی عالمی وبا کے دوران 2020 میں 15 اور 16 دسمبر کی شب تھی۔ 33 سالہ ڈیلفین اپنے گھر سے اچانک لاپتہ ہو گئیں۔ وہ اپنے شوہر اور دو کم عمر بچوں کے ساتھ اس گھر میں مقیم تھیں۔

16 دسمبر کو سیدرک یوبیلے نے چار بجے کے قریب پولیس کا مطلع کیا۔ انھوں نے کہا کہ جب وہ اپنے چھوٹے بچے کے رونے کی آواز سے بیدار ہوئے تو اُن کی بیوی گھر میں موجود نہیں تھیں۔

پولیس اور پڑوسیوں نے بڑے پیمانے پر علاقے میں سرچ آپریشن کیا۔

سماعت کے دوران عدالت کو پتہ چلا کہ سیدرک اور ڈیلفین کے تعلقات میں تلخی آ گئی تھی اور انھوں نے اپنے شوہر سے طلاق کی بات کی تھی۔ اس دوارن ڈیلفین کا ایک دوسرے شخص کے ساتھ افیئر شروع ہو گیا جو انھیں ایک چیٹ لائن پر ملے تھے۔

پراسیکیوشن کا کہنا ہے کہ اپنی گمشدگی کی رات ہی ڈیلفین نے سیدرک کو بتایا تھا کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہیں، جس پر دونوں کے درمیان تکرار شروع ہوئی اور پڑوسیوں کو ڈیلفین کی چیخ بھی سنائی دی تھی۔

ممکنہ طور نے سیدرک نے اپنی بیوی کا گلا گھونٹ کر انھیں مار ڈالا۔

استغاثہ کا کہنا ہے کہ قتل کرنے کے بعد سیدرک یوبیلے نے اُن کی لاش کو آس پاس کے دیہی علاقوں میں پھینک دیا۔

A photograph shows a poster, which reads as
CHARLY TRIBALLEAU/AFP

اس کیس میں ایک اہم ثبوت یہ تھا کہ سٹرک پر کھڑی ڈیلفین کی گاڑی اپنی معمول کی پارکنگ کی جگہ کے بجائے مخالف سمت میں پارک ہوئی تھی۔ جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ رات کو یہ گاڑی استعمال کی گئی۔

دیگر اہم عوامل یہ تھے:

  • گھر کے لاؤنچ میں ڈیلفین کے ٹوٹے چشمے پڑے تھے۔
  • سیدرک یوبیلے کے فون کے ایپ میں قدموں یا سٹیپس کا ڈیٹا نہیں تھا حالانکہ ان کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے ڈیلفین کو ڈھونڈا۔
  • اُن کے بیٹے لوئس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’صوفے اور کرسمس ٹری‘ کے درمیان اُن کے والدین کی بہت زیادہ تکرار ہوئی

سیدرک یوبیلے کے نفسیاتی معائنہ سے پتہ چلا کہ وہ ایک غیر ذمہ دار انسان ہیں اور اُن کا بچین بھی بہت اچھا نہیں گزرا تھا۔ وہ روزانہ چرس کا نشہ کرتے اور سنجیدگی سے نوکری بھی نہیں کرتے تھے۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اپنی اہلیہ ڈیلفین کی گمشدگی پر انھوں نے بہت زیادہ تشویش ظاہر نہیں کی تھی اور کچھ ہی دیر کے بعد اُن کے بینک اکاؤنٹ سے پیسے نکالے تھے۔

سیدرک یوبیلے کی والدہ نے بھی اہم شواہد پیش کیے۔ ان کے مطابق سیدرکنے ڈیلفین کی طلاق لینے کی خواہش کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا تھا کہ ’بہت ہو گیا، میں اسے مار کر دفنا دوں گا اور وہ اُسے کبھی نہیں ڈھونڈ پائیں گے۔‘

سیدرک یوبیلے کے وکیل کا کہنا ہے کہ یہ تمام چیزیں قیاس آرائیوں سے زیادہ کچھ بھی نہیں اور اس بنیاد پر انھیں قصوروار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ ’عدالتیں برے کردار کو سزا نہیں دیتیں بلکہ وہ مجرموں کو سزائیں دیتی ہیں۔‘

سیدرک کے وکلا کا کہنا ہے کہ جن اشاروں کا ذکر کیا گیا، اُن کی متبادل وضاحتیں موجود ہیں۔

انھوں نے کہا کہ کسی بھی عام حالات میں جائے وقوعے پر کئی ایسے شواہد موجود ہوتے ہیں جیسے خون کے دھبے یا پھر قتل کے بعد صفائی وغیرہ لیکن سیدرک یوبیلے کے گھر میں ایسا کچھ بھی نہیں ملا۔

سیدرک کے وکلا کا کہنا ہے کہ اُن کے موکل کے کردار کے بارے میں عدالت میں جو وضاحتیں دی گئیں وہ سب غیر ضروری تھیں، جیسے وہ پورنوگرافی دیکھتے ہیں۔

دفاع نے ڈیلفین کی گمشدگی کی کوئی متبادل وضاحت پیش نہیں کی۔

عمومی طور پر لاش ملے بغیر کسی قتل کے جرم میں سزائیں نہیں ملتی ہیں کیونکہ جرم کے سرزرد ہونے کے بارے میں بہت کم شواہد دستیاب ہوتے ہیں لیکن دوسری جانب دنیا کے کئی ممالک میں حالات و واقعات کی شواہد کے طور پر جانچ کی جاتی ہے۔

فرانس میں ایسے مقدمات میں فردِ جرم عائد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ججوں کو یہ یقین ہونا چاہیے کہ یہ جرم ہوااور ایسے مقدموں میں اگر نو ججوں میں سے اگر دو سے زیادہ اس رائے سے متفق نہ ہوں تو ملزم کو سزا نہیں سنائی جاتی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US