یہ اجلاس ابھی حتمی طور پر طے نہیں ہوا ہے لیکن اگر روس کے صدر ولادیمیر پوتن اگلے دو ہفتوں میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے بوداپیسٹ جاتے ہیں تو انھیں پہلے کچھ رکاوٹیں عبور کرنی ہوں گی۔
جب پوتن نے اگست میں الاسکا کا سفر کیا تھا تو امریکہ نے ان کے صدارتی طیارے کے لیے خصوصی اجازت دی تھییہ اجلاس ابھی حتمی طور پر طے نہیں ہوا ہے لیکن اگر روس کے صدر ولادیمیر پوتن اگلے دو ہفتوں میں امریکی صدر ٹرمپ سے ملاقات کے لیے بوداپیسٹ جاتے ہیں تو انھیں پہلے کچھ رکاوٹیں عبور کرنی ہوں گی۔
جب پوتن اگست میں اینکوریج سربراہی اجلاس کے لیے الاسکا گئے تو امریکہ نے ان کے صدارتی طیارے کے لیے خصوصی اجازت دی تھی۔ ترمیم شدہ الیوشن ایل-96، جسے ’فلائنگ کریملن‘ کہا جاتا ہے، چار طاقتور انجنوں سے لیس ہے اور اس میں متعدد دفاعی نظام نصب ہیں۔
یورپی یونین کی فضائی حدود کے ساتھ ساتھ روس کے طیاروں پر امریکی فضائی حدود میں بھی پرواز کرنے پر پابندی ہے۔ لہٰذا اگر پوتن بوداپیسٹ کے لیے پرواز کرتے ہیں تو انھیں کسی یورپی یونین کے رکن ملک کے اوپر سے گزرنے کے لیے خصوصی اجازت درکار ہو گی۔
یہ بالکل ممکن ہے لیکن ہنگری روس کے صدر کے لیے آسان ترین منزل نہیں ہے جو شاذ و نادر ہی بیرون ملک جاتے ہیں اور جنھوں نے کئی سالوں سے یورپی یونین کا سفر نہیں کیا۔
کریملن کے ترجمان دمیتری پسکوف کہتے ہیں ’ابھی کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ ہمیں بس اتنا پتا ہے کہ صدر اس ملاقات کے لیے تیار ہیں۔‘
پوتن کے یوکرین پر مکمل حملے کے حکم دینے کے چند دن بعد یورپی یونین نے پوتن اور وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کے اثاثے منجمد کر دیے۔
تمام 27 یورپی یونین ممالک کی فضائی حدود میں روسی طیاروں پر مکمل پابندی بھی عائد کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ ہنگری اور اس کے کئی پڑوسی ممالک بھی نیٹو کے رکن ہیں۔
پوتن پر انٹرنیشنل کرمنل کورٹ کی جانب سے جنگی جرائم کے الزامات بھی ہیں جس میں یوکرینی بچوں کو غیر قانونی طور پر روس بھیجنا شامل ہیں۔
لہٰذا مشکلات تو موجود ہیں اگرچہ ہنگری کا ماننا ہے کہ یہ سب مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ کیونکہ ویسے بھی ہنگری آئی سی سی سے نکلنے کے عمل سے گُزر رہا ہے۔
ہنگری کے وکٹر اوربان یورپی یونین میں پوتن کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک ہیں۔پوتن اور ہنگری کے صدر وکٹر اوربان نے اجلاس پر پہلے ہی فون پر بات کی ہے اور ہنگری کے وزیر خارجہ پیٹر سِزیارٹو نے صحافیوں سے کہا کہ ’ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ وہ ہنگری میں داخل ہو سکیں یہاں کامیاب مذاکرات کریں اور پھر واپس وطن جا سکیں۔‘
یورپی یونین بھی ممکنہ طور پر رکاوٹیں پیدا نہیں کرے گا۔
یورپی کمیشن نے کہا ہے کہ کوئی بھی ملاقات جو ’یوکرین کے لیے منصفانہ اور دیرپا امن‘ کی طرف آگے بڑھے خوش آئند ہے اور کمیشن صدر ٹرمپ کی ان کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔
یورپی یونین کے مطابق روس پر تازہ ترین مجوزہ پابندیوں جو اب تک کا 19واں پیکیج ہے، کا ایک اہم مقصد روس کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔ یونین کا کہنا ہے کہ پوتن پر سفری پابندی نہیں لگائی گئی، صرف ان کے اثاثے منجمد کیے گئے ہیں۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ روس کے صدر ماسکو سے بوداپیسٹ تک کیسے پرواز کریں گے۔ ظاہر ہے وہ ایئر سربیا کا ٹکٹ لے کر بیل گریڈ جا کر ٹرین کے ذریعے ہنگری پہنچنے کا راستہ اختیار نہیں کریں گے جو شاید سیدھا اور آسان راستہ ہو۔
وہ چاہیں گے کہاپنے ایل 96 طیارے کی حفاظت میں جائیں لیکن اس کا مطلب غالباً کسی یورپی یونین اور نیٹو رکن ملک کے فضائی حدود استعمال کرنا اور یورپی یونین کی روسی طیاروں پر عائد پابندی کو توڑنے کے لیے اجازت حاصل کرنا ہوگا۔
یورپی کمیشن کی ترجمان انِٹا ہِپر نے جمعہ کو کہا کہ ’سفر کی سمت کے حوالے سے رکن ممالک استثنیٰ دے سکتے ہیں لیکن یہ استثنیٰ ہر رکن ملک کو الگ سے دینا ہو گا۔‘
نیٹو نے بھی اس مسئلے کو متعلقہ حکام کے پاس بھیجا ہے اور چونکہ ٹرمپ بھی اس سب کا حصہ ہیں تو ممکن ہے کہ وہ رضا مند ہو جائیں۔
پوتن کے الیوشن طیارے کو ’فلائنگ کریملن یا اڑتا ہوا کریملن‘ کا نام دیا گیا ہے۔خواہ خصوصی اجازت ہی کیوں نہ مل جائے، نقشے پر نظر ڈالنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پوتن کو ایک طویل راستے سے گھوم کر سفر کرنا پڑ سکتا ہے۔ یوکرین کا راستہ تو کسی صورت ممکن نہیں اور غالباً پولینڈ کا بھی نہیں، کیونکہ وارسا کے ماسکو کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں۔
سب سے سیدھا راستہ غالباً بلیک سی کے مشرقی ساحل سے ترکی، پھر بلغاریہ اور یا تو سربیا یا رومانیہ کے ذریعے ہنگری تک ہو سکتا ہے۔
سربیا کے صدر الیگزینڈر وُچچ پوتن کو بخوبی جانتے ہیں، اور ایئر سربیا کے طیارے یورپی یونین کی فضائی حدود استعمال کرتے ہوئے ماسکو کے لیے براہِ راست پروازیں چلاتے ہیں۔ سربیا یورپی یونین میں شمولیت کا امیدوار ملک ہے لیکن ابھی رکن نہیں ہے۔
یہ یورپی یونین کے ممالک، بلغاریہ یا ممکنہ طور پر رومانیہ ہوں گے جنھیں اجازت دینی ہوگی، اور انھیں پوتن کے طیارے کو اپنی فضائی حدود سے گزرتے وقت سکیورٹی ایسکوٹ کرنا ہوگا۔
رومانیہ میں یورپ کی سب سے بڑی نیٹو بیس بننے والی ہے اور بلغاریہ بھی ایک نیٹو بیس تعمیر کر رہا ہے تاکہ دفاعی اتحاد کے مشرقی محاذ کو مضبوط بنایا جا سکے۔
بی بی سی نے دونوں ممالک کی وزارتِ خارجہ سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔
اگر پوتن مزید احتیاط برتنا چاہیں تو وہ ترکی کے راستے، یونان کے جنوبی ساحل کے گرد چکر لگا کر، مونٹی نیگرو کی فضائی حدود سے گزرتے ہوئے سربیا جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ راستہ کہیں زیادہ طویل ہے۔

بوداپسٹ اس لحاظ سے سب سے آسان مقام نہیں، حالانکہ یہ وِکٹر اوربان کے لیے بہت موزوں ہے، جو غالباً پوتن کے یورپی یونین میں سب سے قریبی اتحادی ہیں اور جن کے ڈونلڈ ٹرمپ سے بھی اچھے مراسم ہیں۔
جمعے کے روز ٹرمپ نے کہا: ’یہ ایک ایسا رہنما ہے جو ہمیں پسند ہے، وہ مجھے پسند کرتا ہے، اور میں اسے۔‘
ایک نمایاں بین الاقوامی سربراہی اجلاس وکٹر اوربان کے لیے کسی طور نقصان دہ نہیں ہوگا، خاص طور پر اس وقت جب وہ آئندہ بہار کے انتخابات سے قبل رائے شماری میں پیچھے ہیں۔
بوداپسٹ کے مقام کے نامزد ہونے کے چند ہی گھنٹوں کے اندر اوربان نے پوتن کو فون کیا اور اپنے فیس بک پیج پر اعلان کیا کہ ’تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں۔‘
اوربان کو یورپی یونین کی یوکرین کی حمایت پر زیادہ اعتبار نہیں، اور انھوں نے فوراً واضح کر دیا کہ برسلز کا اس مذاکراتی عمل سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
انھوں نے جمعے کو ہنگری کے ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’چونکہ یورپی یونین جنگ کی حامی ہے، اس لیے جائز بات یہ ہے کہ اسے اس امن عمل سے الگ رکھا جائے۔‘
تاہم اگلے ہفتے برسلز میں ہونے والے سربراہی اجلاس میں جب یورپی رہنما ان سے ملاقات کریں گے تو ان کے خیالات یقیناً کچھ اور ہوں گے۔