"مجھے شروع میں سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ میری چیزیں کہاں غائب ہو رہی ہیں۔ میک اپ، پرفیوم، گھڑیاں اور یہاں تک کہ سونے کی چین بھی ڈسٹ بن میں پھینک دی جاتی تھی، اور بعد میں وہی ڈسٹ بن باہر لے جا کر خالی کیا جاتا اور قیمتی چیزیں غائب ہو جاتیں۔ میں بار بار سوچتی تھی کہ آخر یہ سب کہاں جا رہا ہے، لیکن جب خفیہ کیمروں کی فوٹیج دیکھی تو سب واضح ہوگیا کہ ملازمہ کتنی صفائی سے چوری کر رہی تھی۔"
یہ کہنا ہے معروف اداکارہ اور ٹی وی ہوسٹ جویریہ سعود کا جن کو لگا کہ شاید وہ خود چیزیں رکھ کر بھول جاتی ہیں۔ کبھی گھڑی غائب، کبھی میک اپ باکس ادھورا، کبھی پرفیوم کا ڈھکن تو کبھی سونے کی چین غائب۔ گھر میں روزمرہ کی چیزیں یوں غائب ہوتی تھیں جیسے ہوا میں تحلیل ہو رہی ہوں۔ پہلے پہل انہوں نے یہی سوچا کہ شاید بچوں نے کھیل میں کہیں رکھ دیا ہوگا یا خود کہیں رکھ کر یاد نہیں رہا، لیکن جب یہ معمول بن گیا تو شک نے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کیا۔
چونکہ گھر میں ملازمائیں ایجنسیوں کے ذریعے آتی جاتی رہتی تھیں، اس لیے جویریہ نے پہلے معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ وہ امریکہ سے واپسی پر تب حیران رہ گئیں جب دیہات کی وہی سادہ لڑکیاں، جنہوں نے کبھی ساڑھی نہیں دیکھی تھی، اب فیشن شو کے ماڈلز کی طرح بغیر بازوؤں والے لباسوں میں گھر میں گھوم رہی تھیں۔ انہیں سمجھ آگیا کہ ماحول بدلتے بدلتے نیتیں بھی بدل گئی ہیں۔
پھر جب انہوں نے کیمروں کی ریکارڈنگ چلائی، تو تصویر صاف ہوگئی۔ ملازمہ انتہائی مہارت سے قیمتی چیزیں ایسے ڈسٹ بن میں ڈالتی کہ سب کچھ نارمل لگے۔ ڈسٹ بن باہر جاتے ہی وہ خاموشی سے قیمتی اشیا نکال لیتی۔ یہ چالاکی اس حد تک تھی کہ اگر کسی کو بتایا جاتا تو شاید یقین نہ آتا۔
یہی نہیں، آٹھ سال تک ساتھ رہنے والا خانسامہ بھی آخر میں بڑی رقم ادھار لے کر ایسے غائب ہوا جیسے کبھی تھا ہی نہیں۔ پہلے چھوٹی موٹی رقم مانگ کر واپس کر دیتا تھا، اس لیے اعتبار تھا، لیکن جب اعتماد اپنی حد سے بڑھ جائے تو نقصان بھی اسی شدت سے ہوتا ہے۔
جویریہ نے ہنستے ہوئے مگر طنزیہ انداز میں کہا کہ اصل اداکار تو گھریلو ملازم نکلتے ہیں۔ بیماری کا بہانہ، بچوں کی فیس کا ڈرامہ، اماں کی دوا کا ذکر اور ہر بار پیسے ہاتھ میں۔ تنخواہ تو بس ایک رسمی سی چیز ہوتی ہے، اصل کمائی تو بہانوں میں چھپی ہوتی ہے۔
یہ وہ حقیقت ہے جو اکثر گھروں کے اندر دبی رہتی ہے۔ جویریہ نے اسے نہ صرف کھول کر بیان کیا بلکہ یہ احساس بھی دلایا کہ شرافت اور بھروسے کے پردے میں کبھی کبھی سب سے بڑی چوری چپکے سے ہو جاتی ہے۔