ترکی میں موجود شامی پناہ گزینوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ سادتین کاراگوز نے ان کا فائدہ اٹھایا جب وہ مدد کے لیے بے چین تھیں لیکن کاراگوز ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
سادتین کاراگوز نے خود پر لگنے والے جنسی ہراسانی کے الزامات کی تردید کی ہےشام سے تعلق رکھنے والی بے یار و مددگار خواتین کے لیے ابتدا میں سادتین کاراگوز کسی 'فرشتے' سے کم نہیں تھے۔ وہ اپنی مقامی برادری میں ’پناہ گزینوں کے دادا‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
لیکن بی بی سی نیوز ترکی کی ایک سال پر محیط تحقیقات میں ایسے انکشافات سامنے آئے ہیں جن میں انقرہ میں مقیم انتہائی کمزور پناہ گزین خواتین کو ہدف بنانے والے جنسی استحصال کے ایک سکینڈل کے مرکز میں یہی کاراگوز کھڑے نظر آتے ہیں۔
سادتین کاراگوز ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہیں۔
انقرہ کا محلہ آلتنداغ شام کے شہر حلب کے نام پر ’چھوٹا حلب‘ کہلاتا ہے کیونکہ یہاں ہزاروں شامی پناہ گزین آباد ہیں۔
یہیں پر کاراگوز نے سنہ 2014 میں اپنا فلاحی ادارہ قائم کیا تھا۔
ترکی دنیا کی سب سے بڑی پناہ گزین آبادیوں میں سے ایک کا میزبان ملک ہے اور کاراگوز کے قائم کردہ ادارے جیسے فلاحی ادارے بہت سے پناہ گزینوں، خاص طور پر خواتین کے لیے زندگی کا سہارا ہوتے ہیں کیونکہ ان میں سے زیادہ تر خواتین بے روزگار ہوتی ہیں۔
ایسی ہی ایک خاتون مدینہ (فرضی نام) ہیں۔
ان کا تعلق شام کے شہر حلب سے ہے۔ وہ سنہ 2016 میں خانہ جنگی کے دوران شام سے جان بچا کر ترکی پہنچی تھیں۔
مدینہ کہتی ہیں کہ دو سال بعد اُن کے تین بچوں میں سے ایک سخت بیمار ہو گیا اور اُسی دوران اُن کے شوہر انھیں تنہا چھوڑ کر چلے گئے۔
انقرہ میں اپنے بچوں کی تنہا پرورش کرنے والی مدینہ کہتی ہیں کہ انھیں اس وقت مدد کی اشد ضرورت تھی۔
لوگوں نے انھیں سادتین کاراگوز کے ادارے ’امید خیر سٹور‘ کی طرف بھیجا جو کہ ایک فلاحی سٹور تھا۔
یہ ادارہ لوگوں سے عطیات جمع کرتا ہے جیسے کہ بچوں کے ڈائپرز، پاستا، تیل، دودھ اور کپڑے اور انھیں پناہ گزینوں میں تقسیم کرتا ہے۔
کاراگوز کا ادارہ آلتنداغ میں واقع ہے جسے چھوٹا حلب کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں کثیر تعداد میں شامی پناہ گزین آباد ہیںشام واپس بھجوانے کی دھمکی
مدینہ کہتی ہیں کہ ’انھوں (کاراگوز) نے مجھ سے کہا: ‘میرا دروازہ تمہارے لیے کھلا ہے۔ جب تمہارے پاس کوئی اور راستہ نہ ہو تو میرے پاس آ جانا، میں تمہارا خیال رکھوں گا۔‘
لیکن مدینہ کے مطابق جب انھوں نے واقعی مدد کے لیے کاراگوز سے رجوع کیا تو ان کا رویہ بالکل بدل گیا۔
مدینہ بتاتی ہیں کہ اُنھوں نے دیکھا کہ کاراگوز اپنے سٹور میں خواتین کو ان کی اجازت کے بغیر چھوتے تھے اور ایک دن انھیں بھی چھوا۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کے فلاحی ادارے میں میں آخری دورے پر یہ معاملہ دن حد سے زیادہ بڑھ گیا۔
وہ کہتی ہیں کہ نے اُن سے کہا کہ وہ دفتر کے ہی ایک حصے میں پردے کے پیچھے چلی جائیں تاکہ انھیں کچھ سامان دیا جا سکے۔
مدینہ مزید بتاتی ہیں کہ ’انھوں نے مجھے پکڑ لیا اور کہا کہ وہ مجھے پسند کرتے ہیں۔ پھر وہ مجھے چومنے لگے۔۔۔ میں چلّانے لگی، میں نے اُن سے کہا مجھ سے دور رہیں۔ اگر میں نے چیخ نہ ماری ہوتی تو وہ میرا ریپ کرنے کی کوشش کرتے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ وہ اس عمارت سے نکلنے میں کامیاب ہو گئیں اور کاراگوز سے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ اس واقعے کی پولیس میں رپورٹ کریں گی۔
لیکن اس کے باوجود وہ کہتی ہیں کہ کاراگوز مسلسل اُنھیں منانے کی کوشش کرتے رہے۔
ایک دن کاراگوز اُن کے گھر تک آگئے، زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاتے رہے اور کہتے رہے کہ ’دروازہ کھولو۔۔۔ دروازہ کھولو۔‘
مدینہ بتاتی ہیں کہ اس دن ’انھوں نے بہت خوفناک باتیں کہیں۔ میں نے دروازہ نہیں کھولا کیونکہ میں خوفزدہ تھی۔‘
یہ کہتے ہوئے مدینہ کی آواز رندھ گئی۔ وہ بتاتی ہیں کہ کاراگوز نے اُنھیں شام واپس بھجوانے کی دھمکی بھی دی تھی۔
مدینہ کہتی ہیں کہ وہ انتقامی کارروائی کے ڈر سے پولیس کے پاس کبھی نہیں گئیں اور نہ ہی کسی کو اس واقعے کے بارے میں بتایا۔
مسٹر کاراگوز کا کہنا ہے کہ انھوں نے گذشتہ دہائی میں پناہ گزینوں کو مفت اشیائے خوردنی فراہم کی ہےدیگر خواتین کے الزامات اور کاراگوز کی تردید
سابق بینک ملازم سادتین کاراگوز تمام الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کوبتایا کہ ان کی تنظیم نے اب تک 37 ہزار سے زیادہ افراد کی مدد کی ہے جن میں زیادہ تر پناہ گزین ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی خیراتی تنظیم میں جہاں امداد تقسیم کی جاتی ہے وہ جگہ بہت چھوٹی اور بھیڑ بھاڑ والی ہے اور وہاں سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب ہیں، اس لیے ان کے لیے کسی بھی عورت کے ساتھ تنہائی میں ہونا ممکن ہی نہیں۔
گذشتہ برسوں میں ان کی فلاحی سرگرمیوں کو وسیع پیمانے پر پذیرائی ملی ہے۔ سنہ 2020 میں ایک مقامی اخبار نے ان کی تنظیم کو ایوارڈ بھی دیا۔ ان کا ادارہ قومی ٹی وی چینلز پر بھی دکھایا گیا اور کاراگوز کے مطابق ملکی و بین الاقوامی تنظیموں سے انھیں تعاون بھی حاصل ہوا۔
تاہم مدینہ سمیت تین خواتیننے بی بی سی کو بتایا کہ کاراگوز نے ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی اور انھیں ہراساں کیا۔
اس کے علاوہ سات دیگر افراد، جن میں ان کی تنظیم کے دو سابق ملازمین بھی شامل ہیں، نے کہا کہ انھوں نے یا تو خود یہ سب ہوتے ہوئے دیکھا یا ان عورتوں کی زبانی براہِ راستیہ سب سنا جن کے ساتھ کاراگوز نے سنہ 2016 سے 2024 کے درمیان جنسی زیادتی کی تھی۔
کاراگوز کے ایک سابق ملازم نے بتایا: ’ان کی میز کے پیچھے ایک چھوٹا کمرہ تھا جہاں ہم امدادی پیکج رکھتے تھے۔ ہم نے انھیں اس کمرے میں عورتوں کو ہراساں کرتے کئی بار دیکھا۔‘
27 سالہ شامی پناہ گزین ندا (فرـے نام) کہتی ہیں کہ شروع میں جب کاراگوز نے مدد کی پیشکش کی تو ’ایسا لگا جیسے کوئی فرشتہ آسمان سے اُترا ہو۔‘
لیکن ندا بتاتی ہیں کہ جب وہ پہلی بار ان کی تنظیم کے دفتر گئیں تو کاراگوز نے کہا کہ وہ صرف اس صورت میں امداد دیں گے اگر وہ اُن کے ساتھ ایک خالی فلیٹ میں چلیں۔
ندا کے بقول کاراگوز نے کہا: ’ہم زیادہ دیر نہیں لگائیں گے، صرف دس منٹ لگیں گے۔۔۔ اگر تم نہیں چلو گی تو میں تمہیں کچھ نہیں دوں گا۔‘
ندا اپنی بھابھی کے ساتھ گئی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ یہ سن کر وہ دونوں فوراً وہاں سے نکل گئیں۔
ندا کا کہنا ہے کہ وہ اس لیے دوبارہ گئیں کیونکہ ان کے خاندان کو غذا کی انتہائی ضرورت تھی’میرا جسم کانپ رہا تھا، میں رو رہی تھی‘
ندا بتاتی ہیں کہ وہ انقرہ میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایک کم سہولیات والے فلیٹ میں رہتی تھیں، جہاں فریج جیسی بنیادی ضرورت کی چیز بھی موجود نہیں تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ خاندان کی کفالت کے لیے بے حد پریشان تھیں۔ انھیں سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں جائیں اور پھر وہ دوبارہ اس دکان پر چلی گئیں۔
ندا کہتی ہیں کہ ایک بار کاراگوز انھیں پردے کے پیچھے ایک جگہ لے گئے تاکہ ان کے بیٹے کے لیے نیپی مل سکے۔ انھوں نے بتایا کہ ’ان کے ایک ہاتھ میں نیپی تھی اور دوسرا ہاتھ خالی تھا جس سے انھوں نے میرے سینے کو چھونے کی کوشش کی۔‘
وہ یاد کرتےہوئے بتاتی ہیں کہ کاراگوز نے کہا: ’گھبراؤ نہیں، یہ عام بات ہے۔‘
اگلی بار جب وہ وہاں واپس گئیں تو وہ کہتی ہیں: ’وہ پیچھے سے آئے اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ انھوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کے جنسی اعضا کو چھوؤں۔۔۔ وہ جیسے کوئی درندہ تھا جو مجھ پر حملہ آور تھا۔‘
ندا نے مزید بتایا: ’میرا پورا جسم کانپ رہا تھا۔۔۔ میں رو رہی تھی۔ انھوں نے کہا: ’پرسکون ہو جاؤ۔ یہ عام بات ہے، جلدی کام ختم ہو جائے گا۔‘
وہ کہتی ہیں کہ وہ وہاں سے کسی طرح نکلنے میں کامیاب ہو گئیں اور باہر موجود دیگر خواتین کو خبردار کیا کہ وہ دکان میں نہ جائیں۔
ندا کہتی ہیں کہ یہ آخری بار تھا جب انھوں نے سادتین کاراگوز سے مدد مانگی۔
جنسی ہراسانی سے جڑی بدنامی کے خوف اور اس بات سے ڈر کر کہ لوگ انھیں ہی قصوروار ٹھہرائیں گے، ندا کہتی ہیں کہ وہ کسی کو یہ واقعہ بتانے کی ہمت نہیں کر سکیں، یہاں تک کہ اپنے شوہر کو بھی نہیں۔
بتول بتاتی ہیں کہ وہ اس قدر خوفزدہ ہو گئی تھیں کہ وہ کسی کے لیے بھی دروازہ کھولنے سے ڈرنے لگیں’جب امداد اٹھانے کے لیے مڑی تو انھوں میرے جسم کو چھوا‘
تیسری خاتون بتول نے بی بی سی کو بتایا کہ کاراگوز نے ان پر حملہ کیا تھا۔ وہ اب جرمنی منتقل ہو چکی ہیں۔
وہ ایک سنگل مدر یعنی تنہا ماں ہیں اور تین بچوں کی پرورش کر رہی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ وہ کاراگوز کے پاس مدد کے لیے پہنچی تھیں۔ ’جب میں امداد اٹھانے کے لیے مڑی تو انھوں نے میرے جسم کو چھوا۔‘
’مجھے بہت غصہ آیا۔ میں ان پر برہم ہوئی۔۔۔میں نے انھیں دھکا دیا اور امداد چھوڑ کر دکان سے باہر نکل گئی۔‘
وہ امید کرتی ہیں کہ ان کا کھل کر بات کرنا ان بہت سی خواتین کی مدد کرے گا جو اسی طرح کی صورتحال سے گزر رہی ہیں۔
یہ الزامات کاراگوز کے خلاف سامنے آنے والے پہلے الزامات نہیں ہیں۔ پولیس افسران ماضی میں کم از کم دو بار ان سے اس طرح کی شکایت کے متعلق تفتیش کر چکے ہیں۔
قانونی دستاویزات کے مطابق سنہ 2019 میں ایک خاتون نے ان پر جنسی ہراسانی اور حملے کا الزام لگایا تھا، لیکن ترک پراسیکیوٹر نے شواہد کی کمی کی بنیاد پر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ کیا تھا۔
اسی طرح سنہ 2022 میں اقوامِ متحدہ کی پناہ گزین ایجنسی نے ان الزامات کے علم میں آنے کے بعد متعدد خفیہ انٹرویوز کیے اور 2025 میں پولیس نے ان کی دکان پر چھاپہ مارا، ان کی سرگرمیاں معطل کر دیں، اور ان سے جنسی زیادتی کے ایک نئے الزام کے لیے تفتیش کی گئی۔
کاراگوز کے وکلا نے ہمیں پراسیکیوٹر کے دفتر کی ایک رپورٹ فراہم کی، جو جون میں جاری کی گئی تھی۔ اس میں شواہد کی کمی کی بنیاد پر ان پر مقدمہ نہ چلانے کا فیصلہ ظاہر کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ اور پولیس دونوں کا کہنا ہے کہ وہ ان الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، لیکن اس وقت تک مزید کارروائی نہیں کر سکتے جب تک متاثرہ خواتین یا گواہ خود سامنے آ کر باضابطہ شکایت درج نہ کروائیں۔
کچھ خواتین نے ہمیں بتایا کہ وہ بیان ریکارڈ کروانا محفوظ نہیں سمجھتیں کیونکہ انھیں ڈر ہے کہ ایسا کرنے سے وہ ہراسانی یا ملک بدر کیے جانے کا شکار ہو سکتی ہیں۔
کاراگوز کا کہنا ہے کہ ان کی صحت ایسی نہیں ہے کہ وہ کسی جنسی فعل میں شامل ہو سکیںہم نے جب یہ الزامات کاراگوز کے سامنے رکھے تو انھوں نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ باتیں سچ ہوتیں تو مزید خواتین سامنے آتیں۔
انھوں نے کہا: ’تین لوگ، پانچ لوگ، دس لوگ شکایت کر سکتے ہیں، ایسی باتیں ہو جاتی ہیں۔ لیکن اگر آپ کہتے کہ 100 یا 200 خواتین نے مجھ پر الزام لگایا ہے، تب ٹھیک ہے، تب مانا جا سکتا ہے کہ میں نے واقعی کچھ ایسا کیا ہوگا۔‘
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں شوگر اور بلڈ پریشر کی بیماری ہے اور ایک میڈیکل رپورٹ دکھائی جس میں سنہ 2016 میں ان کے بائیں خصیے کے آپریشن کی تفصیل درج تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد وہ کسی قسم کی جنسی سرگرمی کرنے کے قابل نہیں رہے۔
ہم نے استنبول یونیورسٹی میں یورولوجی کے پروفیسر اور مردانہ صحت کے ماہر آتش قادی اولو سے پوچھا کہ کیا اس آپریشن سے واقعی ایسا اثر پڑ سکتا ہے؟ انھوں نے بتایا کہ جب ایک خصیہ نکالا جاتا ہے تو ’ٹیسٹوسٹیرون کی سطح تقریباً 90 فیصد تک برقرار رہتی ہے، اسی لیے یہ کسی کی جنسی زندگی پر اثر نہیں ڈالتی۔‘
جب ہم نے یہ بات مسٹر کاراگوز کے سامنے رکھی تو وہ پھر بھی بضد رہے کہ ان کے لیے ’جنسی سرگرمی ممکن نہیں ہے۔‘
ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ بعض اوقات جنسی حملے کا مقصد طاقت یا کنٹرول کا اظہار ہوتا ہے، نہ کہ جنسی خواہش۔ اس پر انھوں نے جواب دیا: ’مجھے ذاتی طور پر ایسی کوئی خواہش نہیں۔ ہم نے تو صرف نیک کام کیے ہیں اور بدلے میں ہمیں یہ مل رہا ہے، لیکن ہم تین یا پانچ لوگوں کی باتوں سے خود کو ٹوٹنے نہیں دیں گے۔‘
کاراگوز کا کہنا تھا کہ جن خواتین نے ماضی میں ان پر حملے کے الزامات لگائے انھوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ انھوں نے ان خواتین کو پولیس کے پاس رپورٹ کیا تھا کہ وہ منشیات فروشی یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث تھیں۔ ان کے مطابق ان پر اس طرح کے پچھلے جھوٹے الزامات کو بھی پراسیکیوٹر نے مسترد کر دیا تھا۔
ہم سے بات کرنے والی تمام خواتین نے ان الزامات کو رد کیا کہ وہ یا ان کے اہلِ خانہ کسی جرم میں ملوث تھے۔ بی بی سی کو بھی اس بات کے شواہد نہیں ملے کہ وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں شامل تھیں۔
رواں سال مارچ میں کاراگوز نے اپنی تنظیم کا نام بدل کر ’بیر ایویم آشیوی درنیگی‘ (اپنا گھر، کھانا فراہم کرنے والی ایسوسی ایشن) رکھ دیا اور پہلی بار اسے حکام کے پاس بطور خیراتی ادارہ رجسٹر کرایا۔
مدینہ ایک نئے گھر میں منتقل ہو چکی ہیں اور اپنا فون نمبر بھی بدل چکی ہیں، لیکن وہ کہتی ہیں کہ اب بھی انھیں خوابوں میں کاراگوز نظر آتے ہیں۔
انھوں نے کہا: ’میں کسی مرد پر اعتماد نہیں کر سکتی۔۔۔ میں بے حس اور افسردہ ہو گئی تھی۔ میں مرنا چاہتی تھی۔۔۔ میں صرف اپنے بچوں کے لیے زندہ رہی۔‘
وہ بتاتی ہیں کہ انھوں نے اپنی تمام قوت اپنے بیٹے کی جان بچانے میں لگا دی، لیکن وہ سات سال کی عمر میں وفات پا گیا۔
اب، ترکی میں دس سال گزارنے کے بعد ان کے خاندان کو کسی دوسرے ملک میں آباد ہونے کی منظوری مل گئی ہے۔ اگرچہ وہ ایک نئی زندگی شروع کرنے کے موقع پر خوش ہیں، مگر انھیں دوسری خواتین کے بارے میں فکر ہے۔
انھوں نے کہا: ’میری کچھ سہیلیاں اب بھی اس کے پاس مدد لینے جاتی ہیں۔۔۔ وہ بہت اثر و رسوخ والا آدمی ہے، اگر ہم شکایت بھی کریں تو ہماری بات کون سنے گا؟ ہماری حالت کی پرواہ کس کو ہے؟‘