وزیرِ مملکت برائے صحت ڈاکٹر ملک مختار احمد بھرتھ نے کہا ہے کہ پاکستان میں عوامی صحت اور بیماریوں سے بچاؤ کو فروغ دینے میں سب سے بڑی رکاوٹ قانون سازوں اور میڈیا کے افراد میں صحت سے متعلق بنیادی حقائق اور ماں کے دودھ کی افادیت سے لاعلمی ہے۔ہیلتھ سروسز اکیڈمی (ایچ ایس اے) اسلام آباد میں صحافیوں کے لیے منعقدہ آگاہی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وفاقی سطح پر ماں کے دودھ کے متبادل قانون تاخیر کا شکار اس لیے ہے کہ ارکانِ پارلیمنٹ میں اس کی اہمیت کا فہم موجود نہیں۔’ہمارے بہت سے قانون ساز نہیں جانتے کہ فارمولہ دودھ کے نقصانات کیا ہیں اور ماں کا دودھ بچوں کے لیے کتنا ضروری ہے۔‘
ڈاکٹر مختار بھرتھ نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ کئی پارلیمنٹیرینز اور سینئر صحافیوں کو یہ تک معلوم نہیں کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی پانی سے نہیں بلکہ متاثرہ خون یا آلات سے پھیلتے ہیں۔ ’جب وہ لوگ جو رائے عامہ بناتے ہیں بنیادی صحت کے حقائق سے ناآشنا ہوں، تو عوام سے کیا توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ دودھ پلانے، ویکسینیشن یا خاندانی منصوبہ بندی کو سمجھیں؟‘
یہ مشاورتی اجلاس یونیسیف کے تعاون سے وزارتِ صحت، وزارتِ منصوبہ بندی اور دیگر اداروں کے اشتراک سے منعقد کیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر میڈیا کے نمائندوں نے مشترکہ اعلامیہ منظور کیا جس میں ماں کے دودھ کے فروغ اور فارمولہ دودھ کی گمراہ کن تشہیر کی مخالفت کا عزم کیا گیا۔ڈاکٹر مختار بھرتھ نے کہا کہ ’ماں کا دودھ بچوں کو بیماریوں سے بچانے اور غذائی قلت کے خلاف سب سے طاقتور قدرتی تحفظ ہے لیکن بدقسمتی سے اسے آج بھی غلط سمجھا جاتا ہے۔‘
یونیسیف کی نمائندہ برائے پاکستان پرنیل آئرن سائیڈ نے کہا کہ ’ماں کا دودھ ہر بچے کے لیے پہلا ٹیکہ، پہلا حق اور پہلی حفاظت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ماں کا دودھ فطری مانع حمل بھی ہے۔ جو خواتین دو سال تک صرف اپنا دودھ پلاتی ہیں، وہ اس دوران حاملہ نہیں ہوتیں، مگر اکثر خواتین کو اس حقیقت کا علم ہی نہیں۔‘
یونیسیف کی نمائندہ برائے پاکستان پرنیل آئرن سائیڈ نے کہا کہ ’ماں کا دودھ ہر بچے کے لیے پہلا ٹیکہ، پہلا حق اور پہلی حفاظت ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں چھ ماہ سے کم عمر کے صرف 47 فیصد بچے ہی مکمل طور پر ماں کا دودھ پیتے ہیں، جو عالمی ہدف 60 فیصد سے بہت کم ہے۔ اس کمی کے باعث ہر سال ہزاروں بچے ایسی بیماریوں سے جان گنوا دیتے ہیں جن سے بچاؤ ممکن ہے۔ماہرین نے زور دیا کہ میڈیا کو عوام میں دودھ پلانے کی اہمیت اجاگر کرنے، غلط فہمیوں کے ازالے اور گمراہ کن تجارتی تشہیر کے خلاف مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا۔ اجلاس میں ورکنگ ویمن کے لیے ڈے کیئر مراکز کی ضرورت پر بھی بات کی گئی۔